نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈان کے ساتھ کیا کیا جل گیا؟ اشفاق لغاری

اخبار کے مالکان نے ملک کے اصل مالکان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے سیرل کے ہر اتوار کو چھپنے والے کالم کی قربانی دی اور اس کو بند کیا۔

وطن عزیز زباں بندی کے عظیم دور سے گزر رہا ہے۔ سیرل المیڈا کی ”ڈان لیکس“ کے نام سے مشہور خصوصی رپورٹ اور اس کے بعد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ملتان میں کیے گئے انٹرویو پر ملک کے اصل مالکان ڈان پر کیا ناراض ہوے، ان کی وہ ناراضگی مختلف صورتوں میں ابھی تک جاری ہے۔ پہلے کینٹ اور بعد میں ڈفینس ہاؤسنگ اتھارٹی میں ڈان اخبار پر غیرعلانیہ بندش لگی۔ سیرل المیڈا اور ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس کو خدا خدا کر کے جان کا امان ملا۔

اخبار کے مالکان نے ملک کے اصل مالکان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے سیرل کے ہر اتوار کو چھپنے والے کالم کی قربانی دی اور اس کو بند کیا۔ بڑے وقفے کے بعد سیرل کے دو کالم ڈان میں چھپے مگر اگلے ہفتے سیرل کا ٹویٹر پر صحافت چھوڑنے کا اعلان پڑھنے کو ملا۔ ملک کے ہنسی خوشی کے ساتھ سوچنے والے لوگ ہفتے وار ایک خوبصورت کالم پڑھنے سے محروم ہوگئے، جن کو غصہ تھا ان کا غصہ شاید اب بھی کم نہیں ہوا۔ اس غصے کی آگ میں آخرکار ہم سب نے ڈان کو ملک کے دارالخلافہ میں جلتے دیکھا۔

روشنی، رنگوں، رقص، سروں، دلیل اور آواز کے راستے روکنے کے لئے وطن عزیز میں ہجومی نفسیات والے ہر وقت ملک کے اصل مالکان کی آواز کے انتظار میں رہتے ہیں، اس ملک میں ایک پیج پرصرف وہی رہے ہیں۔ ایک ایسے ہی ہجوم نے ڈان کے اسلام آباد کے دفتر پر چڑھائی کی، کراچی میں ڈان کے خلاف احتجاج کیا اور دھمکیاں دی۔ ڈان کو جلتا دیکھ کر مجھے قائد اعظم محمد علی جناح یاد آئے، ان کا ڈان کے نام کے ساتھ اخبار کے پہلے صفحے پر موجود اسکیچ یاد آیا، جس میں جناح صاحب سر جھکائے کچھ سوچ رہے ہیں۔

ڈان کو جلانے والوں نے جناح صاحب کے نام اور اس اسکیچ کو بھی غصے میں جلا دیا۔ جس اخبار کو جناح صاحب نے چندے کے پیسوں سے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے نکالا تھا۔ وہ اخبار اب اس شہر میں بار بار جلتا ہے، جس کا نام ”اسلام آباد“ ہے۔ جناح صاحب نے جب ڈان نکالا تھا تو اس کے لئے ان کا کہنا تھا ”ڈان پوری سچائی کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کے افکار کی آئینہ داری کرتا رہے گا اور آل انڈیا مسلم لیگ کی تمام سرگرمیوں کی رپورٹ نہایت بے خوفی کے ساتھ آزادانہ طور پر شائع کرے گا“ (صفحہ 69، انگلیاں فگار اپنی، ضمیر نیازی)۔

جناح کی اس نشانی، جناح کے اس ورثے کے ساتھ اس حیرتوں کے جزیرے میں آج کل کیا ہو رہا ہے وہ دنیا دیکھ رہی ہے۔ ڈان کے ایڈیٹر ظفرعباس اور سابقہ اسٹافر سیرل کو دنیا ان کے صحافتی کام پر انعامات سے نواز رہی ہے اور یہاں چلتی پھرتی لال مسجدوں سے ان کے خلاف تقرییاً غداری کے فتوے آ رہے ہیں۔ کم سے کم سیرل کے ساتھ تو یہی سلوک کیا گیا ہے۔ اپنے عظیم لوگوں کی قدر، عظمت، اور عزت حیرتوں کے اس جذیرے میں بس کچھ اس ہی طرح ہوتی ہے۔ دردِ دِل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھلاؤں، انگلیاں فگار اپنی خامہ خوںچکاں اپنا۔

جس دن ڈان کو جلایا گیا، اس دن اخبار کے ساتھ بابائے قوم کا نام اور اسکیچ بھی جل گیا۔ چلو ایک لمحے کے لئے بھول جاتے ہیں کہ جناح صاحب کا نام اور اسکیچ ڈان کو جلانے والوں کو یاد نا ہوگا مگر وہ کم سے کم یہ تو یاد رکھتے کہ اس دن کے اخبار میں اس ملک کو ریاست مدینہ میں تبدیل کرنے کے لئے کام کرنے والے ”آخری ایماندار“ وزیر اعظم عمران خان کی تصویر بھی چھپی تھی، ہمارے سپاہ سالار کی تصویر بھی چھپی تھی اور تو اور اس ریاست کو حقیقی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے لئے دن رات مصروف ملک ریاض کی تصویر کا تو کم سے کم خیال کیا جاتا۔ مگر غصے کی آگ میں سب کو جلا دیا گیا۔ جناح صاحب سے لے کر ملک ریاض تک۔

سوویت یونین کے معروف مصنف میخائل شولوخوف کے معروف ترین ناول کا عنوان تھا ، اور ڈان بہتا رہا۔ ڈان (Don) روس میں ایک دریا ہے۔ پاکستان میں بھی ڈان کو جلتا نہیں، بہتے رہنا چاہیے۔

About The Author