سرزمین گُل کے مصنف غلام حسین دامانی مرحوم نے اپنی کتاب میں ڈیرہ اور ٹانک سے متعلق 1901ء سے 1985ء تک کے بڑے دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں اور اس کتاب کو لکھنے اور مرتب کرنے میں ان کی مدد ٹانک کے ممتاز صحافی احمد نواز مغل مرحوم نے کی تھی۔
ان بزرگوں کی محنت اور کوشش سے اس وقت کے ایسے حالات قلمبند ہو گیے جو ہمارے خواب وخیال میں بھی نہیں۔اس کتاب کے صفحہ 54 پر وہ لکھتے ہیں کہ 1901ء میں ڈیرہ سے ٹانک تیز ترین سفر کے دو ذرائع تھے ایک میل کارٹ جس میں چھ سیٹیں ہوتی تھیں اور امراء یا انگریز استعمال کرتے تھے دوسری عوامی سواری ٹم ٹم تھی جو تانگے کی مانند تھی جس کی چار سیٹیں ہوتی تھیں۔
میل کارٹ اور ٹمٹم دونوں کو گھوڑے کھینچ کے لے جاتے ۔ٹم ٹم کا سفر ڈیرہ سے ٹانک کے لیے شام پانچ بجے شروع ہوتا اور صبح آٹھ بجے ختم ہوتا یعنی پندرہ گھنٹے جتنا آجکل ڈیرہ سے کراچی کا سفر ہے۔ٹمٹم سیکورٹی کی خاطر شام پانج بجے سات آٹھ ٹمٹم کی ایک کانواۓ بنا کے چلتی کیونکہ ویسے تو پورا رستہ خطرناک تھا مگر پوٹہ اور ہتھالہ کے درمیان بہت گھنا جنگل تھا اور درندے بھی گھومتے تھے۔اکثر لوگ بارہ بور بندوق ساتھ لے کر چلتے۔
اس وقت انگریز ڈاک اور سواریوں کے لیے میل کارٹ استعمال کرتے جو ایک بگھی کی طرح تھی اور چھ سیٹوں اور ڈاک و ساز و سامان تیزی سے لے جاتی۔ میل کارٹ کا اڈہ ڈیرہ کی کچہری مسجد کے ساتھ تھا جہاں ایک گیراج نما جگہ پر میل کارٹ کھڑی ہوتی اور گھوڑوں کے ٹھہرانے کا معقول انتظام تھا۔اس کے علاوہ ایک کمرہ ٹکٹ بکنگ اور ایک کمرہ مسافروں کے آرام اور بیٹھنے کا تھا۔
میل کارٹ کی ٹکٹ ایڈوانس بک ہوتی کیونکہ سیٹیں محدود یعنی چھ تھیں اور مسافر زیادہ ہوتے۔ میل کارٹ کے کوچوان کو بگل بجانے کی خاص تربیت دی جاتی اور اس کی تنخواہ بھی اچھی تھی۔روانگی کے وقت کوچوان مسافروں کو گھر سے اس اڈے پر لے آتا۔بوقت روانگی پہلا بگل بجایا جاتا۔قلی مسافروں کا سامان باہر کی طرف باندھ دیتے اور ڈاک کے تھیلے اندر رکھ دیتے۔
دوسرے بگل بجنے پر سواریاں سیٹوں پر بیٹھ جاتیں۔اور تیسرے بگل پر گھوڑوں کو تیزی سے دوڑا دیا جاتا۔ سڑک پر اگر دور سے مال مویشی نظر آتے تو کوچوان زور سے بگل بجاتا اور چرواہے جلدی سے مال مویشی ہٹا کر سڑک خالی کر دیتے۔ میل کارٹ کے گھوڑے اعلی نسل کے تھے اور ہر پانچ میل پر چوکی تھی۔ چوکی پر پہنچنے سے پہلے دور سے کوچوان بگل بجاتا اور چوکی پر تازہ دم گھوڑے تیار کھڑے کر دیے جاتے ۔کارٹ چوکی پر ایک دو منٹ رکتی اور گھوڑے تبدیل کر دیے جاتے اور پھر نیے گھوڑوں کے ساتھ میل کارٹ بھاگنے لگتی ۔
تازہ دم گھوڑے تبدیل کرنے کا عمل ہر پانچ میل کی چوکی پر ہوتا۔پوٹہ کے مقام پر ریسٹ ہاوس تھا جو پھولوں اور درختوں سے سجا ہوا تھا۔ دور سے بگل کی آواز سن کر خانسامے اور بیرے تیار ہو جاتے اور ہر سواری کو انکی فرمائیش کے مطابق کھانا دیا جاتا۔
انگریز انگریزی کھانے کھاتے اور باقی دیسی کھانے چلتے۔ بِل ادا کرنے کے ساتھ ٹِپ بھی دی جاتی اور کارٹ بگل بجا کے روانہ ہو جاتی ۔اگلا ریسٹ ہاوس ہتھالہ تھا جہاں مسافروں کو چاۓ اور شربت ملتا یہ ریسٹ ہاوس بھی پھولوں کے چمن کے اندر تھا۔
یہاں بھی بل ادا کرنے کے ساتھ انعام دیا جاتا۔ جب کارٹ ٹانک پہنچتی تو ہر سواری کو اس کے گھر کے دروازے پر اتارا جاتا اور کوچوان انعام حاصل کرتا۔اس وقت ڈیرہ ٹانک روڈ اینٹوں کی بنی ہوئی تھی جس میں سیمنٹ بجری بالکل استعمال نہیں ہوتی تھی بلکہ سرخ چونے سے بڑے عمدہ اور خوبصورت طریقے سے اینٹیں لگی ہوئی تھیں۔چونکہ بارشیں بہت ہوتی تھیں پوری ڈیرہ ٹانک روڈ کے اردگرد ہریالی۔سبزہ اور درخت تھے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ