دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سول سپرمیسی اور طلبہ کے مطالبات ۔۔۔حیدر جاوید سید

خیر ہمیں کیا دونوں حریف جماعتیں ہیں ایک دوسرے پر چاند ماری کریں یا گھسیٹیں، سیاست ان کو کرنی ہے ہم تو حرف جوڑ کر روزی روٹی کماتے ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ ہم جوبلی سرکس کے دور سے نکل کر لکی ایرانی سرکس کے دور میں جی رہے ہیں، کچھ فنکار وہی ہیں جو نئی ملازمت پر خوش ہوتے ہیں ان کیلئے صبح وشام میں کوئی فرق ہوتا ہے نہ موسموں سے متاثر ہوتے ہیں۔
مسافرت انہیں نسل درنسل سے مرغوب ہے۔
لکی ایرانی سرکس میں کچھ نئے آئٹم بھی ہیں، چند دن تماشائی خوب بہلے مگر اب ٹکٹ قوت خرید سے زیادہ لگتی ہے۔
ٹماٹر بھی تو 280روپے سے300روپے کلو ہیں۔
سول سپرمیسی آرام کر رہی ہے، نوازشریف علاج کیلئے لندن میں ہیں اور زرداری اسلام آباد کے ہسپتال میں۔ سندھ کی سرحد پنجاب کی طرح برطانیہ سے نہیں ملتی، سندھ سے آگے سمندر ہے۔
ایک طرف بلوچستان دوسری طرف بھارت اور تیسری طرف پنجاب کا صوبہ اسلئے غنیمت ہے کہ اسلام آباد کے ہسپتال میں کمرہ مل گیا۔
سوشل میڈیا پر جیالے اور لیگی کامریڈز آمنے سامنے ہیں، کامریڈز کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی کو نون لیگ کا بستہ پکڑ کر سیاست کرنی چاہئے۔
جیالے کہتے ہیں نون لیگ کی سیاست کا سپر شو ہمیشہ پیپلزپارٹی کیخلاف ہی ہوتا ہے ورنہ کبھی وہ 10سالہ معاہدہ جلاوطنی پر رخصت لے لیتے ہیں اور کبھی مولانافضل الرحمن کی معرفت طے پائے امور کی پابندی کرتے ہیں۔
خیر ہمیں کیا دونوں حریف جماعتیں ہیں ایک دوسرے پر چاند ماری کریں یا گھسیٹیں، سیاست ان کو کرنی ہے ہم تو حرف جوڑ کر روزی روٹی کماتے ہیں۔
ان کالموں میں عرض کر چکا میاں صاحب واقعی بیمار ہیں، اس بیماری کو انہوں نے ہتھیار کے طور پر بہت دانش مندی اور کھلے خرچے سے استعمال کیا۔
ان سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ وسطی پنجاب کے مقبول لیڈر ہیں اور پروپیگنڈے میں ان کی مہارت کی دھول کو بھی پیپلزپارٹی اور دوسرے نہیں پہنچ سکتے۔
زرداری کو مسٹر ٹن پرسنٹ سے مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ کے طور پر انہوں نے ہی مشہور کروایا تھا۔
بینظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک، اعتزاز احسن پر سکھوں کی فہرستیں بھارت کو دینے کا الزام۔ خیر یہ پچھلی صدی کی باتیں ہیں
اُس صدی میں ایک صاحب رانا مقبول آئی جی سندھ لگائے گئے، یہ آج کل سینیٹر ہیں اور سندھ کے دو مقدمات میں مفرور بھی۔
رانا جی نے آصف زرداری پر اپنی نگرانی میں تشدد کروایا تھا۔
پھر یہ ہوا کہ پرویز مشرف اقتدار پر قابض ہوگئے، نواز شریف بارہ ماہ جیل میں رہ کر خاندان سمیت ترکی الفیصل کے جہاز پر جدہ چلے گئے۔
بعد کے دنوں میں پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے درمیان میثاق جمہوریت بھی ہوا، اس میثاق جمہوریت میں لکھا تھا کہ پی سی او ججز کو کبھی عدلیہ کا حصہ نہیں بننے دیا جائیگا۔
اس معاملے میں دونوں (پی پی پی اور نون لیگ) نے کمزوریاں دکھائیں۔
پھر نون لیگ کیانی اور پاشا کیساتھ کھڑی ہوگئی۔
زرداری ان دنوں جن کچے ادھورے مقدمات میں ہمشیرہ سمیت گرفتار ہیں ان کی تحقیقات نون لیگ کے دور میں شروع ہوئی تھی۔
پیٹ پھاڑنے، سڑکوں پر گھسیٹنے، مولوی نوازشریف یہ سب پرانی باتیں ہیں ابھی سول سپرمیسی آرام کررہی ہے
بیماری اور کھلے خرچے کے بوجھ تلے مالکان سے طے شدہ امور رکھے ہیں مگر طعنے پیپلزپارٹی کیلئے ہیں۔
ہوسکتا ہے چند طعنوں میں کچھ وزن بھی ہو لیکن فی الوقت اہم سوال یہ ہے کہ نون لیگ کہاں کھڑی ہے اور پیپلزپارٹی کس ہمالیہ پر؟۔
کچھ دنوں میں قانون سازی ہونی ہے دونوں کے مقام حاضر کا صاف پتہ چل جائیگا۔
52سال کی پیپلزپارٹی کی سیاسی حریف33سالہ مسلم لیگ ہے (33سال اسلئے کہ یہ جماعت1985ء کی غیر جماعتی اسمبلیوں سے تخلیق کی گئی)
پیپلزپارٹی کی سیاسی دشمن تحریک انصاف ہے اور تحریک انصاف سے زیادہ وہ نوانصافی ہیں جوکبھی جیالے تھے اور اب ان پر الہام کی صورت میں زرداری کی خرابیاں، پیپلزپارٹی کے کج اُتر رہے ہیں۔
آنے والے دنوں، مہینوں اور برسوں میں دونوں (پیپلز پارٹی اور نون لیگ ) جماعتوں کے درمیان سیاسی اشتراک عمل کے امکانات بھی ہیں اور الزام الزام کھیلنے کی سیاست کے بھی دونوں کے بیچوں بیچ سول سپرمیسی کے فرنچائزیوں کے مزے ہی مزے ہوں گے۔
ہمیں اس کڑوے سچ کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہئے کہ نون لیگ کی سیاست کا کل اثاثہ پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان سے نفرت ہے اور پیپلزپارٹی کے اثاثوں میں بھی دیگر معاملات کیساتھ نون لیگ سے نفرت بھی شامل ہے۔
جب تک سیاسی اختلافات سے نفرت نکال کر پھینکی نہیں جاتی اس وقت تک پرخلوص سیاسی اشتراک ممکن نہیں۔

فیصلہ دونوں جماعتوں کی قیادت کو کرنا ہے ورنہ ماضی ہمیں بتاتا سمجھاتا ہے کہ
”لڑتے لڑتے ہوگی گم، ایک کی چونچ اور ایک کی دم”۔
طلباء یونینز کی بحالی کا مطالبہ لیکر سڑکوں پر آنے والے طلباء ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کیخلاف لاہور میں بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔ مقدمے کے نامزد ملزمان میں شہید مشال خان کے والد اقبال لا لہ بھی شامل ہیں۔
یہ مقدمہ ریاست کے بیانیہ کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ پچھلی شب طلباء ایکشن کمیٹی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے ذمہ داران نے ایک ٹی وی پروگرام میں یونینز کی بحالی کیساتھ اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ تعلیمی اداروں کے باہر موجود سیاسی، فرقہ وارانہ اور دوسرے مسائل تعلیمی اداروں کے اندر نہ داخل ہونے پائیں۔
البتہ طلباء یونینز پر پابندی کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے جماعت اسلامی کے امیرالعظیم کا موقف درست نہیں تھا۔
تاریخ پر من پسند غلاف چڑھانے یا اُسے مسخ کرنے سے گریز کیا جانا بہت ضروری ہے۔
جنرل ضیاء الحق نے جب طلباء یونینز پر پابندی لگائی تھی اس وقت لفٹ کی طلباء تنظیموں نے مزاحمت کیلئے پروگریسو سٹوڈنٹس الائنس قائم کیا تھا۔ اس الائنس میں پی ایس ایف، این ایس ایف، بی ایس او، سندھ پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن، سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن، پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن اور طلباء مزدور کسان رابطہ کمیٹی وغیرہ شامل تھے۔
اپنے اپنے دائرے میں اسلامی جمعیت طلبہ اور پروگریسو سٹوڈنٹس الائنس نے یونینز کی بحالی کیلئے جدوجہد کی، دونوں طرف سے گرفتاریاں ہوئیں اور کچھ طلبا کو سزائیں بھی ہوئیں
مگر یہ بھی تاریخ ہے کہ جنرل ضیاء نے اس وقت کے امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کی درخواست پر اسلامی جمعیت طلبہ کے رہنمائوں اور کارکنوں کی سزائیں معاف کر دیں
جبکہ پروگریسو طلباء والوں نے سزائیں بھگتیں۔
جمعیت کے ناظم اعلیٰ معراج کو کوڑوں کی سزا ہوئی لیکن معاف ہوگئی یہ سزا، اسی طرح شبیر احمد خان والا کیس بھی واپس ہوا
مگر نذیرعباسی، فقیر اقبال ہسبانی، حمید بلوچ، دائم چانڈیو، افضل کھوسو، رفیق پہلوان اور دوسروں نے پوری سزائیں کاٹیں۔
حمید بلوچ پھانسی چڑھے۔ نذیر عباسی تشدد سے ہلاک ہوئے اور فقیر اقبال ہسبانی بھی تشدد سے جاں بحق ہوئے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کو مسخ کرنے کی ضرورت نہیں ہاں تعلیمی اداروں میں یونینز کی بحالی کیلئے جدوجہد پراتفاق اچھی بات ہے۔

About The Author