حال دل کس کو سنائیں ہم؟
حیدر جاوید سید
پنجاب میں بیوروکریسی کے تبادلوں کا طوفان ابھی تھما نہیں’ سوا سال میں تین چیف سیکرٹری اور پانچ آئی جی پولیس،
گیارہ کروڑ کی آبادی والے صوبے میں لائے گئے۔ گو ہفتہ کے روز وزیراعظم نے لاہور میں اپنے وسیم اکرم پلس (وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار) کی دلجوئی کرتے ہوئے تبادلوں کو نیازی بزدار مشاورت کا نتیجہ قرار دیا
لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ ہمارے عثمان بزدار کو تبادلوں کا اس وقت پتہ چلا جب میڈیا پر خبریں آگئیں۔ ٹی وی چینل بند کرتے ہوئے انہوں نے پاس بیٹھے اپنے کزن سے کہا ”
اس وزارت اعلیٰ سے تو میں تحصیل ناظم تونسہ اچھا تھا”۔ وزیراعلیٰ یہ کیوں کہنے پر مجبور ہوئے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ بھی جانتے ہیں کہ کل کو اگر کسی کی گردن ناپی گئی تو وہ عثمان بزدار ہوں گے۔
5آئی جی پولیس اور تین چیف سیکرٹری ہی نہیں آئے پنجاب میں بلکہ پچھلے 15 ماہ کے دوران بیوروکریسی کے بڑے حصے کو تیسری بار تبادلوں کا سامنا کرنا پڑا ”آکے بیٹھے بھی نہ تھے کہ نکالے گئے”
والی صورتحال ہے۔ ترقیاتی کام صفر ہیں’ لاقانونیت اور پولیس گردی پنجاب میں عام ہے، رہی سہی کسر ”آشیانہ پناہ گاہ” کے منظر عام پر آنے والے سکینڈل نے پوری کر دی۔ ستم یہ ہے کہ صوبائی وزیرقانون راجہ بشارت’
اس سکینڈل کے کرداروں کے تحفظ کیلئے میدان میں کود پڑے۔ لیکن یہ بھی المیہ ہے کہ دنیا جہاں کے موضوعات پر علم ودانش کے موتی رولنے والے فیس بکی مجاہدین بھی اس سکینڈل پر خاموش ہیں۔
ہفتہ کو ہی وزیراعظم نے لاہور میں فرمایا ”عثمان بزدار سادہ آدمی ہے، محلات میں نہیں رہتا، کام کرتا ہے تو اس کی تشہیر نہیں کرتا، میں اس سے کہتا ہوں کام کی تشہیر کرو تاکہ لوگوں کو پتہ چلے”۔
واقعی بہت سادہ وزیراعلیٰ ہے چند دن ادھر کی ایک سپہر میں وزیراعلیٰ نے گورنرہاؤس کے کیئر ٹیکر کو فون کیا اور کہا ”سوئمنگ پول کا پانی گرم کردو میں نہانے کیلئے آرہا ہوں”۔
اختیار ان کا اتنا ہے صوبہ پر کہ مشکل سے شہباز گل نامی امریکہ پلٹ سے جان چھڑوائی تھی لیکن علیم خان اب بھی مسلط ہے غیراعلانیہ طور پر۔
شاید اسی لئے وزیراعظم کو کہنا پڑا’ مجھے معلوم ہے آپ سارے وزیراعلیٰ بننا چاہتے ہیں مگر عثمان بزدار وزیراعلیٰ رہے گا۔ 15ماہ کے دوران تین بار تبادلوں کی زد میں آئی بیوروکریسی کے دفاتر میں روٹین ورک کی فائلوں کا انبار لگا ہوا ہے،
روزمرہ کے امور پر بھی احکامات جاری نہیں ہوتے۔ بیوروکریسی کہتی ہے درست کام کرنے پر بھی اگر نیب کے ہاتھوں ذلیل ہونا ہے تو بہتر یہ ہے کہ کام کیا ہی نہ جائے۔
گیارہ ساڑھے گیارہ کروڑ کی آبادی والے صوبے کا کوئی پرسان حال نہیں۔ قانون کی حاکمیت خواب ہے وہ بھی جاگتی آنکھوں کا۔
مہنگائی پورے ملک کا مسئلہ ہے مگر پنجاب میں کچھ زیادہ ہی سنگین مسئلہ ہے۔ صوبے کی نصف کے قریب آبادی خط غربت سے نیچے مقیم ہے۔
اسی دوران پنجاب حکومت نے عظیم الشان اعلان کرتے ہوئے گنا 190روپے من اور گندم 1365 روپے من کی سرکاری قیمت مقرر کردی۔
پچھلے 15ماہ کے دوران چینی کی قیمت 50روپے کلو سے 80روپے تک پہنچی اس ظلم کا ایک کردار وہ ڈیموں والی سرکار سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی ہیں 190روپے من گنا سرکاری قیمت میں’ کٹائی’ لوڈنگ ان لوڈنگ اور شوگر مل تک پہنچانے کا عمل بھی شامل ہے۔
پچھلے برسوں میں جب 180روپے من قیمت تھی، 120روپے من خریدا گیا گنا اب بھی زیادہ سے زیادہ130 روپے من کے حساب سے خرید لیں گے ”وچولوں” کے ذریعے مل مالکان”۔
بنیادی اہمیت کا سوال یہ ہے کہ کیا فی من گنا کی سرکاری قیمت سے کاشتکاروں کی تشفی ہو سکے گی؟ سادہ سا جواب ہے جی نہیں۔
کھاد’ زرعی ادویات اور بجلی کی قیمتوں میں پچھلے سوا سال کے دوران ہونے والے اضافوں نے چھوٹے کاشتکاروں کی کمر توڑ دی ہے۔ گندم 1365 روپے من خریدے گی حکومت’
جبکہ بازار میں دس کلو آٹے کا تھیلہ 540 روپے سے 560 روپے فروخت ہو رہا ہے’ کیا کمائی کا حق صرف شوگر ملوں اور فلور ملوں کے مالکان کو حاصل ہے؟ کاشتکاروں اور صارفین کیلئے صدر ٹرمپ آکر سوچیں گے؟
کیا کریں اس ملک میں ایسے نمونے بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیں 280روپے یا 300روپے کلو ٹماٹر فروخت ہونے سے کاشتکار خوشحال ہوا ہے۔
ہفتہ کے روز ٹماٹر 290روپے کلو’ ادرک 300′ پیاز 120′ سبز دھنیا 370′ مرچ 290′ توریاں 150′ گوبھی 160 اور لہسن 410روپے کلو میں فروخت ہوا (یہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے نرخ ہیں
دور دراز کے علاقوں میں حالت اس سے بھی بری ہے۔ کل ایک ”پڑھے لکھے” وزیر فرما رہے تھے "مہنگائی کی ذمہ داری زرداری اور نواز شریف پر عائد ہوتی ہے”۔ روئیں اس بات پر یا ہنستے رہیں آپ کی مرضی۔ پنجاب حکومت ہو یا کہ وفاقی حکومت دونوں زبانی جمع خرچ کی تشہیر پر زور دیتی ہیں۔
خیر چھوڑیں ہم اپنے پرانے دوست شوکت یوسفزئی کی بات کرلیتے ہیں جس طرح انہوں نے بچت پروگرام بتایا ہے (ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہونے والی پشاور میٹرو منصوبے میں بچت) اس سے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں میں کھل بلی مچ گئی ہے۔
فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ ورلڈ بنک کی صدر حکومت پاکستان سے درخواست کرنے والی ہیں کہ وہ شوکت یوسفزئی کو ورلڈ بنک کا کنٹری ہیڈ بنانے کی اجازت دے۔
حرف آخر یہ ہے کہ لاہور میں طلباء مارچ کو منظم کرنے والے طالب علم رہنماؤں میں سے ایک عالمگیر وزیر کو گزشتہ شب پنجاب یونیورسٹی کی حدود سے ”اُچک” (گرفتار کر)لیا گیا ہے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ صوبائی وزارت داخلہ نے مارچ کو منظم کرنے اور اس کیلئے فنڈز فراہم کرنے والوں کی فہرستیں بنانے کیلئے ایک ادارے کو ہدایات جاری کردی ہیں۔
دوسری طرف پنجاب کے ایک وزیر نے چند مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سے درخواست کی ہے کہ وہ عوامی سطح پر’ طلباء مارچ کو اسلامی نظریات سے متصادم قرار دینے کی مہم چلائیں یہ وہی وزیر ہیں
جو سلمان تاثیر کے قاتل کی قبر کو اپنی محبت کا آستانہ قرار دیتے رہے ہیں۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے یہ وزیر ماضی میں ایک مذہبی طلباء تنظیم سے منسلک رہے۔ یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ یہ کھیل حکومت کیلئے نقصان کا باعث بنے گا وہ اپنے وزیر کو روکے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر