جیمز ہوفا امریکا کا مشہور یونین لیڈر تھا۔ بلو کالر ملازمتیں کرنے والوں کی سب سے بڑی تنظیم انٹرنیشنل بردرہڈ آف ٹیمسٹرز کا لیڈر۔ ٹیمسٹر ٹرک ڈرائیور کو کہتے ہیں۔ ہوفا 1952 میں اس کا نائب صدر اور 1957 میں صدر بن گیا اور 1971 تک اس عہدے پر رہا۔ پہلے دن سے اس نے یونین کو منظم جرائم کے لیے استعمال کیا۔
جیمز ہوفا پر بہت مقدمے چلے اور ان میں سے بیشتر میں اسے بری کرانے کا کمال یونین کے وکیل ولیم بوفالینو نے انجام دیا۔ بہرحال ایک مقدمے میں اسے پانچ سال قید بھگتنا پڑی۔
وکیل ولیم بوفالینو کا کزن رسل بوفالینو بھی امریکا میں ایک بڑا نام تھا۔ وہ بوفالینو فیملی کا سربراہ تھا جو امریکا میں اطالوی مافیا چلاتی تھی۔
ایک دن ایک ٹرک ڈرائیور فرینک شیرن پر کسی الزام میں مقدمہ قائم ہوا تو یونین کے وکیل ولیم بوفالینو نے اسے بچالیا۔ شام کو دونوں بار میں ملے تو اتفاق سے وہاں رسل بفالینو موجود تھا۔ اس نے فرینک میں چھپے جوہر کو پہچان لیا۔
فرینک دوسری جنگ عظیم میں اٹلی میں لڑچکا تھا اور اطالوی زبان جانتا تھا۔ یہ رسل سے دوستی کا سبب بن گیا۔
فرینک جی دار تھا اور کسی کو قتل کرتے ہوئے اس کے ہاتھ نہیں کانپتے تھے۔ رسل اور بعد میں ہوفا کی خاطر اس نے بہت سے کانٹے چنے اور بہت کامیابی سے درجنوں افراد کو ٹھکانے لگایا۔
جیمز ہوفا کس قدر بااثر شخص تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا بھائی اور امریکا کا اٹارنی جنرل رابرٹ کینیڈی اسے سزا دلوانے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ جب ہوفا ایک مقدمے میں پھنس گیا تو امریکی صدر نکسن نے اس کی سزا معاف کی تھی۔
ہوفا نے جیل سے نکلنے کے بعد دوبارہ یونین کا صدر بننے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اسے رسل اور فرینک نے بار بار سمجھانے کی کوشش کی کہ پنشن لے کر بیٹھ جاؤ لیکن وہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ آخر رسل نے وہ ڈائیلاگ بولا جس سے صدر کینیڈی کے قاتلوں کا سراغ بھی ملتا ہے: جو لوگ ملک کے صدر کو مار سکتے ہیں، ان کے لیے کسی یونین کے صدر کو مارنا کیا مشکل ہے۔
جیمز ہوفا 1975 میں لاپتا ہوگیا اور کبھی اس کا سراغ نہیں ملا۔
رسل کو دو سال بعد دھوکادہی کے مقدمے میں جیل بھیج دیا گیا اور وہ تیرہ چودہ سال قید رہا۔ اس کا انتقال 1994 میں ہوا۔
فرینک شیرن بھی مختلف الزامات پر اسی عرصے میں تیرہ سال جیل میں رہا۔ وہ 2003 تک زندہ رہا۔
فرینک نے مرنے سے پہلے تحقیقاتی صحافی چارلس برینٹ کو تفصیلی انٹرویوز دیے اور بتایا کہ جیمز ہوفا نے پہلی ملاقات میں اس سے کہا تھا، "آئی ہرڈ یو پینٹ ہاؤسز” یعنی "میں نے سنا ہے کہ تم مکانوں میں رنگ و روغن کرتے ہو۔”
فرینک جب کسی کو گولی مارتا تھا تو دیوار رنگین ہوجاتی تھی۔ یہ اس طرف اشارہ تھا۔
فرینک کے انتقال کے ایک سال بعد چارلس برینٹ کی کتاب شائع ہوئی جس کا نام وہی تھا، "آئی ہرڈ یو پینٹ ہاؤسز”
فرینک نے انکشاف کیا تھا کہ اپنے قریبی دوست جمی ہوفا کو رسل کے کہنے پر اسی نے قتل کیا تھا۔
فرینک کا آبائی تعلق آئرلینڈ سے تھا اس لیے اطالوی مافیا کے لوگ اسے آئرش مین کہتے تھے۔ مارٹن سکورسیسی کی نئی فلم دا آئرش مین ان ہی حقیقی واقعات اور چارلس برینٹ کی کتاب کے انکشافات پر مبنی ہے۔
نیٹ فلکس کی اس فلم میں آئرش مین یعنی فرینک کا کردار رابرٹ ڈی نیرو، جمی ہوفا کا کردار ال پچینو اور رسل کا کردار جو پیشی نے ادا کیا تھا۔ یہ تینوں غیر معمولی کام کرنے والے اداکار ہیں۔ خاص طور پر ڈی نیرو کو جوان، ادھیڑ عمر اور پھر بوڑھا دیکھنا دلچسپ تجربہ ہے۔
ایک دن ایک ٹرک ڈرائیور فرینک شیرن پر کسی الزام میں مقدمہ قائم ہوا تو یونین کے وکیل ولیم بوفالینو نے اسے بچالیا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر