طلبہ یک جہتی مارچ میں ایک بڑے میڈیا گروپ میں ایجوکیشن بیٹ کے رپورٹر مجھے مال روڈ پر مل گئے، اس دوران سجاگ کے اصغر زیدی بھی ہمراہ تھے۔ کہنے لگے کہ میرے پاس ایم اے، ایم فل، پی ایچ ڈی کرنے والی طالبات کے وٹس ایپ میسجز اتنے ہیں کہ شمار سے باہر ہیں، ہر مسیج ایسے مواد کے ساتھ ہے جو تعلیمی اداروں میں ایسے پروفیسرز اور یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے طالبات کو ہراساں( بشمول جنسی ہراسانی) سے متعلق ہے۔
طالبات کی اکثریت اپنی شناخت ظاہر کرنے سے قاصر ہے۔ کیونکہ ان کو خوف ہے کہ ایسا کرنے سے وہ تعلیم سے تو ہاتھ دھو ہی بیٹھیں گی، ساتھ ساتھ گھر والے اور سماج بھی ان کو قبول نہیں کریں گے۔
کہتے ہیں کہ میں نے سفارت خانوں میں شراب کی بوتلوں پر چھپٹتے ہوئے پنحاب یونیورسٹی کی ایڈمنسٹریشن سے تعلق رکھنے والے ایسے اساتذہ دیکھے جو یونیورسٹی کو جیل خانہ بنائے رکھتے ہیں اور یہ لوگ نجانے اپنے آپ سے بھی کیسے جھوٹ بول لیتے ہیں؟
میں اور زیدی صاحب اور وہ میرے دوست رپورٹر ایک دوسرے سے نظریں ہی ملا نہیں پارہے تھے کیونکہ ہم تینوں اپنے تئیں بڑے ‘سماج سدھار’ بنتے ہیں اور بڑے باغیانہ خیالات کے مالک بنتے ہیں لیکن روز آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ایک لڑکی نے اس مارچ میں ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر انگریزی میں لکھا تھا۔
” ہم جنسی طور پر ہراساں اس لیے ہوتی ہیں کیونکہ ایڈمنسٹریشن ایسا ہونے کی اجازت دیتی ہے”
ایک طالب علم احتجاجی مارچ میں کنٹینر پر مائیک پکڑ کر جی سی یونیورسٹی لاہور کے نیو ہاسٹل کے گیٹ کے سامنے ہزاروں کے مجمع کے سامنے کہہ رہا تھا
” ہمارے پاس ایک ایک اس پروفیسر اور یونیورسٹی انتظامیہ کا نام موجود ہے جو طالبات کو ہراساں کرنے اور ان کو نازیبا مسیج بھیجنے میں ملوث ہے۔ یہ سلسلہ نہ رکا تو ہم پبلک کے سامنے ایک بڑے جلوس میں ان سب کے نام بتائیں گے اور ان کے کرتوت سب کے سامنے لائیں گے تو وہ اپنے گھروں میں داخل نہیں ہوسکیں گے”
میری کئی انتہائی قریبی رشتہ دار عورتیں ٹیچرز ہیں ان میں سے کچھ نے مجھے بتایا کہ جب کبھی ایجوکیشن دفاتر میں وہ جاتی ہیں تو وہاں پر کلرک سے لیکر افسران تک میں ایسے لوگ ہیں جو اتنی نازیبا گفتگو آپس میں کرتے ہیں کہ وہ شرم سے زمین میں گڑی جاتی ہیں اور یہ سب ان کو سنانے کے لیے کی جارہی ہوتی ہیں۔ اور کبھی تو من میں آتا ہے کہ نوکری چھوڑ کر گھربیٹھ جائیں ۔
یہاں پر پھر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ ‘یہ عورتیں کس سے آزادی لینے کی بات کرتی ہیں’
طالبات ہی نہیں، ہرعمر کی عورت ‘ہراسانی’ کا شکار ہوتی ہے اور اسے کہیں کہیں نہ کہیں مرد شاؤنزم کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ اب عورتوں میں اگر اس صورت حال سے نکلنے اور اس جبر میں اور نہ رہنے کا جذبہ پیدا ہورہا ہے تو اسے جھوٹے الزامات لگا کر دبانے کی کوشش ہورہی ہے۔ لیکن ہماری بہنیں، بیٹیاں،مائیں اور ساتھی عورتیں اب یہ سب مزید برداشت نہیں کریں گی۔ تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر ان کے ساتھ ہراسانی ایک اہم ایشو ہے اور طلباء سیاست ہو یا عام سیاست یہ اس کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے اور اس کے خلاف جدوجہد ہر ترقی پسند مرد و عورت کا فرض ہے اور یہ فرض وہ سب نبھائیں گے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ