ملک رزاق شاہد
کیلنڈر کی تاریخ بتا رہی ہے کہ آج نذیر مگی کی تیسری برسی ہے.
ایک روز یاروں نے فیصل ہسپتال کے آگے "آستانہ فیض” پہ محفل سجائی. وہی اینٹوں پہ دھری ٹوٹی بنچ….. وہی سایہ دیوار. کوئی پرانی کرسی اٹھا لایا تو کوئی ساتھ والا کھوکھا کھسکا لایا.
یادیں، باتیں، قہقہے… جب محفل رنگ پہ آئی جب کیف و مستی چھائی تو اس رنگ میں بھنگ ڈالنے ایک زر گزیدہ کلف لگے کی سواری آئی.
کہنے لگا ایک کنگلے شاعر کی باتیں کیوں کر رہے ہو؟
ادھار پہ سودا سلف لینے، کرائے کے مکان میں رہنے والے…. مگی میں کیا تھا کہ اس کے گیت گا رہے ہو؟
کیا لگتا ہے تمہارا مگی؟
کیا دیکھا ہے مگی میں؟
اس سے پہلے میرِ مجلس جواب دیتا کہ ایک جوان خون کھول اٹھا.. تصور شاہ بول اٹھا..
ہمارے نذیر فیض، میرے نذیر مگی نے تیری طرح یتیموں کے گھر نہیں اجاڑے،
ہمارے مگی نے چڑھتی جوانیوں کو زندانوں میں نہیں ڈالا.
ہمارے فیض کے دم سے ہمارے چہروں پر مُسکان ہے جب تجھے دیکھ کر شیطان بھی پریشان ہے.
جہاں تمہاری سانسیں پھول جاتی ہیں جہاں تمہارے لفظ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں جب تم ڈر جاتے ہو جب تم چھپ جاتے ہو وہیں سے ہمارا نذیر، ہمارا فیض للکارتا ہے
جاگو جاگو تِڑ تے جاگو،
نندریں نال وی بِھڑ تے جاگو،
فجریں نال ونڈیسوں باریں،
اج دی رات اے پِڑ تے جاگو.
تمہاری محافل میں فرعونیت بولتی ہے مگی کی صحبت میں انسانیت بولتی ہے.
اگر کچھ ظرف باقی ہے تیرے اندر تو بتا ایسے اشعار تم تخلیق کر سکتے ہو؟
درد پچاون اوکھا کم اے،
پتھر چاون اوکھا کم اے،
فیض ڈکھاون سوکھا کم اے،
فیض ونڈاون اوکھا کم اے.
کیا تُو منافقت کو ایسی ضرب لگا سکتا ہے.
میں جیکر کافر ہوندا
قتل تھیون دی رِیت نہ چلدی،
دہر تے ظلم دی بھاہ نہ بلدی.
فریب زدہ چہروں کو فیض ایسے بے نقاب کرتا ہے تُو کر سکتا ہے؟
کعبہ جیکر کُجھ نہ ڈیوے،
جلو پئے مے خانے دے وچ،
سیت نصیب دا چکر کُوڑا،
رُجھ گئے لوک بہانے دے وچ.
تُو اپنے ریت کے محلات کی خاطر تخت کے آگے سرنگوں رہتا ہے جب کہ ہمارے مگی کے اندر ریاستوں کو چوک پہ آئینہ دکھانے کی جرآت ہے.
رانجھا راج سمیت پیا وکدے،
رنگ پور ویچ تے ہیر پئے گِھندوں،
دیس دے لوکی بُکھ پئے مردِن،
خیر اے سئیں کشمیر پئے گھندوں.
رہزنوں کو رہزن، مگی ہی کہہ سکتا ہے تیرے تو پسینے چھوٹتے ہیں ان کے سامنے بولتے ہوئے.
کیا چاتی شخص شریف کنوں کہیں تریمت ذال توں کیا چاتی،
فاروق فرعون فرنگی جہیں انگریز دے بال کنوں کیا چاتی.
تُو انسانوں کو مارنے کا سامان کرتا ہے.. نزیر کی سنتا تو ایسا نہ کرتا.تیرے سارے میزائل تیرے سارے بموں پر فیض یوں نفرین بھیجتا ہے اور بھوکوں کی ترجمانی ایسے کرتا ہے.
اج بُکھ دیاں میڈے ملک وچوں ایں پاڑاں پٹ بُکھ مر پووے،
کئی غوری وانگ میزائل بنا میڈی بُکھ تے سٹ بُکھ مر پووے.
تُو حکومتوں کے قصیدے گاتا ہے. جب کہ ہمارا مگی جابر کے سامنے سچ بولتا ہے.
مُونجھ مر گئی اے مِیت لوکیں دی،
کِتھاں گولاں میں پِیت لوکیں دی،
میڈی دھرتی ہے پاک پر اِتھاں،
ہے حکومت پلیت لوکیں دی.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا