سلطان محمود غزنوی نےایک دفعہ اپنے غلام ایاز کو ایک انگوٹھی دی اور کہا کہ اس پر ایک ایسا جملہ لکھ دو کہ اگر میں اسے خوشی میں پڑھوں تو غمگین ہو جاٶں اور غمی میں پڑھوں تو خوش ہو جاٶں۔ایاز نے اُس انگوٹھی پر یہ جملہ لکھا۔۔۔۔یہ وقت بھی گزر جاے گا۔۔۔۔
سلطان محمود غزنوی کے لئے یہ جملہ ایک لائف سٹائل بن گیا جس کی وجہ سے اس کے ذھن پر دباٶ میں کمی آگئی۔ بعد کے لوگوں نے اس جملے کو حکمت کا موتی سمجھ لیا اور KPK میں تو یہ جملہ اکثر ٹرکوں اور گاڑیوں کے پیچھے لکھا ملتا ھے۔
آج ہم اگر پاکستان کے حالات پر نظر ڈالیں تو یہ کئی مشکلات میں گھرا نظر آتا ھے مگر پاکستانی قوم اس سے پہلے ایسے کئی مشکلات سے کامیابی سے گزر چکی ھے۔
جب پاکستان بنا تو ہمارے دفتروں میں پیپر پِن کی جگہ کیکر کے کانٹے استعمال ہوتے تھے مگر وہ وقت بھی آخر گزر ہی گیا۔ جب اٹھاون اسلامی ملکوں میں پاکستان نے نیوکلر بم بنانے کا فیصلہ کیا تو وسائل کی کمی کے باوجود اسلامی ملکوں میں پہلی ایٹمی قوت بن کے رہا۔
اور یہ سب اللہ کی غیبی حمایت اور طاقت سے ہوا۔ ہم پر جنگیں ۔دھشت گردی مسلط کی گئی وہ بھی جھیل لی۔ اب کچھ مسائل قوم کے سامنے ہیں اور چیلنجوں کا سامنا ھے مگر ان شاء اللہ اس سے بھی قوم کامیابی سے نکل آے گی۔ اسلام کے شروع کے زمانے میں جب مسلمان تھوڑے تھے اور ان کے مخالفین ان کو بہت ستاتے تھے اس وقت ان کے ذھن میں یہ سوال تھا کہ ان مشکلات سے مقابلہ کر کے اپنا کام کیسے آگے بڑھایا جاۓ
اس وقت قران میں ایک آیت اتری جس میں انہیں اس معاملے میں رہنمائ کی گئ کہ مشکل سے نہ گھبراٶ کیونکہ مشکل کے ساتھ اس دنیا میں آسانی بھی موجود ھے۔قران میں یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ مشکل کے بعد آسانی ھے بلکہ یہ فرمایا گیا کہ مشکل کے ساتھ آسانی ھے یعنی جھاں مشکل ھے وہاں عین اسی وقت آسانی بھی موجود ھے۔
مسلمانوں کی صبر و استقامت کی جدوجھد صرف 22 سال کے اندر رنگ لائی اور پورا عرب سر نگوں ہو کر اسلام کے جھنڈے تلے آگیا۔ اللہ پاک نے اس دنیا کو ایسے بنایا ھے کہ یہاں پرابلم کے ساتھ اس کا سلوشن یا حل بھی رکھ دیا گیا ھے۔
اس کی دنیا میں اتنی مثالیں ہیں کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔ آپ ایک سانپ کے کاٹنے یا کتے کے کاٹنے کے علاج کے انجکشن دیکھیں ۔۔ اسی سانپ کا زھر لے کر اس کی معمولی مقدار کسی گھریلو جانور کو لگا دی جاتی ھے اس جانور کے اندر antibodies پیدا ہوتی ہیں
جنہیں جانور کے خون سے نکال کر صاف کیا جاتا ھے اور پھر سانپ کے کاٹنے کا علاج کرنے کا ٹیکہ بن جاتا ھے۔ پرانے زمانے میں دیہاتی لوگ ایک منکا اپنے پاس رکھتے تھے جو سانپ سے ہی نکالتے تھے اور جس کو سانپ کاٹ لیتا اس کاٹے کی جگہ پر منکا لگا دیتے جو سانپ کا زھر چوس لیتا تھا۔ اب یہ قدرت کا قانون ھے کہ دنیا میں جتنی بھی مشکلات ہوتی ہیں
اس کے ساتھ آسانیاں بھی چھپی ہوتی ہیں بس تھوڑی سے عقل اور جدوجھد کے ساتھ ان مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ھے۔ آپ سورج کو دیکھیں اس سے نکلنے والی گرمی اور حرارت گرمی کے موسم میں انسان کو بے بس کر دیتی ھے مگر انسان نے تھوڑی عقل استعمال کر کے اور جدوجھد کے ساتھ اسی سورج کی حرارت سے سولر انرجی پیدا کر لی ۔
اب سولر انرجی سے بلب بنا کر گھر روشن کر دئیے ۔پنکھے اور ائر کنڈیشن بنا کر ٹھنڈک کا سامان بنا لیا ۔ ٹیوب ویل۔ریل گاڑیاں ۔کاریں اب سورج کی اسی حرارت سے چلنے لگی ہیں ۔ چین نے ایک مصنوعی چاند بھی بنا لیا ھے جو رات کو اسی سورج کی روشنی کو استعمال کر کے پورے شھر کو روشن کر دے گا
اور شھر میں سٹریٹ لائٹ کی ضرورت بھی نہیں رھے گی۔ اسی طرح ہم دریا کو دیکھتے ہیں اس کے راستے میں بڑے بڑے پہاڑ اور چٹانیں حائل ہوتی ہیں مگر وہ کہیں نہ کہیں سے راستہ نکال کر اپنی منزل کی طرح رواں دواں رہتا ھے اور ٹکراٶ کی کیفیت سے گریز پا ہو کر سمندر میں جا گرتا ھے۔
ہم نے خود دیہاتوں میں لگے نلکے کا فرش دیکھا ھے جو ماربل پتھر کا ہوتا تھا اور اس کے درمیان میں نلکے سے قطرہ قطرہ پانی گرتا رہتا اور وہاں ایک چھوٹا سا گڑھا بن جاتا تھا۔ اب ایسا کیوں ہوتا تھا کہ پانی کا ایک معمولی قطرہ ایک مضبوط پتھر کی چٹان کے فرش میں سوراخ کر دیتا؟
اس کی وجہ اس قطرے کی consistency تھی ۔یعنی بار بار ایک جگہ گرنا یا یوں سمجھیں بار بار کی جدوجھد پتھر کا سینہ چاک کر دیتی تھی۔
اسی جدوجھد کے نتیجے میں آج انسان بھت سی مشکلات پر قابو پا چکا ھے اور یہ اللہ کا کرم ھے کہ اس نے اس دنیا میں مشکلات کے ساتھ آسانیاں رکھ دیں
اور انسان سے کہ دیا کہ تو کوشش کر تجھے اتنا ہی ملے گا جتنی تو جدوجھد یا کوشش کرتا رھے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر