اے میرے دیس میں ہواؤں کے رخ بدلنے والو
دیس کے کسانوں کے بھی کچھ حالات بدل دیجئیے
معاشی ہائی جیکروں کے نرغے میں ہے وقت کا حاکم
وقت کے حاکم کو کچھ سہارا اور کچھ دلاسہ دیجئیے
محترم قارئین کرام،، نہایت ہی دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں گنا ایک گناہ بن چکا ہے. ملک کا طاقت ور ترین شوگر مافیا جس کی سزا کسانوں اور عوام کو بیک یک وقت دے رہا ہے. کسانوں کو گنے کا جائز ریٹ نہ دے کر اور عوام کو مہنگی چینی فروخت کرکے. ساتھ ساتھ حکومت کو بھی اربوں کھربوں کا ٹیکہ لگا رہا ہے. ٹیکسز اور روڈ سیس فنڈز کی مد میں.اس مافیا سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے.مکمل اندھیر نگری ہے. ایک زرعی ملک کی زراعت اور کسانوں کے ساتھ جو جو ظلم اور زیادتیاں ہو رہی ہیں اگر ان کا نوٹس لے کر کوئی ایکشن نہ لیا گیا تو یہ اژدھا ملکی زراعت اور معشت کو تباہ کر ڈالے گا. اس کو کنٹرول کرنے اور نتھ ڈالنے کے لیے شوگر انڈسٹری میں اجارہ داری کا خاتمہ اشد ضروری ہے. حکومت کو چاہئیے کہ وہ بھارت کی طرح ملک میں منی شوگر ملز لگانے کی فی الفور اوپن اجازت دے دے.شوگر مافیا کی سینہ زوری اور حکمرانوں کی بے حسی اور انصاف تو ملاحظہ فرمائیں.
گزشتہ چھ سال سے کسانوں کے گنے کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا رہا.وہی لوٹ سیل180روپے من جاری ہے. صنعت کاروں کی چینی 45روپے کلو سے 75روپے کلو تک پہنچ چکی ہے. میں اپنی بات کو آگے بڑھانے سے قبل اپنے قارئین اور کسان بھائیوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گنے کے جائز ریٹ اور حق کے حصول کے لیے کسان بچاؤ تحریک کے چیئرمین چودھری محمد یاسین وغیرہ نےحصول انصاف کے لیے باقاعدہ طور پر کیس دائر کرکےعدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھایا ہے.
اس موقف کے ساتھ. خبر کچھ اس طرح ہے کہ
20-2019کے آغاز میں تاخیر اور گنے کی قیمت فصل پر اٹھنے والےاخراجات کے لحاظ سے 400روپے فی من مقرر نہ کئے جانے پر کاشت کاروں نے حکومت پنجاب،شوگر کین کمشنر،پنجاب صنعت و زراعت کے متعلقہ اداروں کے خلاف ہائی کورٹ لاہور بہاولپور بنچ میں رٹ دائر کر دی ہے،جس کی 26نومبر کو سماعت ہوئی. تفصیل کے مطابق شوگر کرشنگ سیزن میں تاخیر ،مارکیٹ میں چینی کی موجودہ قیمت، فرٹیلائزر ،پیسٹی سائیڈ ،زرعی ٹیوب ویل کے لیے بجلی کے بلوں اور ڈیزل کی قیمت میں 50فیصد سے زائد آضافے کے لحاظ سے گنے کا نرخ 400روپے فی من مقرر نہ کئے جانے کے خلاف کاشت کار چوہدری محمد یاسین اور فاروق احمد کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بینچ میں رٹ پٹیشن9213/19 جسٹس مزمل اختر کی عدالت میں دائر کی گئی ہے،
اس رٹ میں کاشت کاروں نے مدعا اٹھایا ہے کہ گنے سے تیار ہونے والی اشیاء چینی ، شیرے ، الکوحل ، بگاس کی قمیتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے کے باوجود شوگر کرشنگ سیزن 2019-20کے لیے شوگر ملز مالکان گنے کی قیمت کم رکھنے پر زور دے رہے ہیں ،پچھلے کرشنگ سیزن 2018-19 سے اب تک فی کلو چینی 50روپے سے بڑھ کر70روپے فی کلو ہو گئی ہے ، شوگر ملوں نے گنے کی مٹھاس کے لحاظ سے کوالٹی پریمیم نہیں دیا،ڈیزل ،فرٹیلائیزر ،پیسٹی سائیڈ کی قیمتوں میں 50گنا آضافے سے ایک سال میں تیار ہونے والی گنے کی فصل کی دیکھ بھال کے اخراجات بڑھ گئے ہیں ،
پچھلے پانچ سالوں سے گنے کے نرخ بڑھائے نہیں جا سکے ،جس کی وجہ سےگنے کے کاشت کاروں نے فی 40کلو گنے کاامدادی قیمت 400روپے مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے , شوگر ملز کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 100کلو گنے سے 11کلو 50گرام چینی بنتی ہے ،100من گنے سے بننے والی چینی کی موجودہ نرخ کے لحاظ سے پرچون مارکیٹ ویلیو 34ہزار 500روپے بنتی ہے ،جبکہ گنے سے چینی کے ساتھ ساتھ دیگر چیزیں جس میں مڈھ 140 راب 180کلو نکلتی ہے جو بالترتیب 420 اور 2700روپے میں فروخت ہوتی ہے ،
اس کے علاوہ 29فیصد بگاس ہوتی ہے جو مارکیٹ میں 3100روپے ٹن میں فروخت ہو رہی ہے ،اس سب کے باوجود شوگر ملز مالکان جن کی زیادہ تعداد قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھی ہے یا بااثر سیاسی شخصیات ہیں جن کا ہر حکومت میں بڑا اثر ہوتا ہے نے زرعی اجناس کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی سطح پر قائم اداروں کو یرغمال بنا رکھا ہے اور یہ ادارے پچھلی حکومتوں کی طرح اب بھی زرعی اجناس کے نرخ ملکی اور عالمی مارکیٹ میں طلب و رسد کو مدنظر رکھ کر جاری کرنے کے بجائے جی حضوری تک محدود ہیں ، عدالت عالیہ نے اس کیس کی ابتدائی سماعت کرنے کے بعد تمام فریقین کو نوٹس بھی جاری کر دیئے ہیں.
اللہ کرے کہ عدالت عالیہ اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے کسانوں کو اس سال شوگر مافیا کے ہاتھوں لٹنے سے بچا لے. میں یہاں پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ گنے کی ریکوری اور مٹھاس کے مطابق کسانوں کو گنے کی قیمت دینے کا فیصلہ کر چکی ہے جسے طاقت ور ترین شوگر مافیا نے اپیل کرکے سپریم کورٹ میں ایسا لٹکایا، رکوایا کہ کسانوں کو آج تک بمطابق مٹھاس گنے کا ریٹ نہیں مل سکا.
جس کا پاکستان میں سب سے زیادہ نقصان زیادہ ریکوری اور مٹھاس کا حامل گنا پیدا کرنے والے سرائیکی وسیب کے اضلاع کے کسانوں کو ہو رہا ہے. سابق دور میں اپر پنجاب سے شوگر ملوں کی سرائیکی خطے میں قانونی اور غیر قانونی شفٹنگ کی وجہ بھی یہاں کے گنے کی ریکوری اور مٹھاس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا مقصود تھا. گنے کا سرکاری ریٹ اپر پنجاب کی ریکوری کی بنیاد پر 180روپے من بنایا گیا ہے. اپر پنجاب کی ریکوری 7فیصد سے 9فیصد تک بتائی جاتی ہے. جبکہ رحیم یار خان سمیت سرائیکی خطے کے اضلاع کی ریکوری9فیصد سے شروع ہو کر 13فیصد تک جاتی ہے. یہ وہ دولت کی کان ہے جس سے زیادہ سے زیادہ دولت کو اکٹھا کرنے کی خاطر اس کاٹن ریجن کو شوگر ریجن میں بدل دیا گیا ہے.
ہم امید کرتے ہیں کہ عدالت عالیہ اس بار اس کیس کے زمینی حقائق کو جاننے کے لیے تفصیلا اور ارجنٹ سن کر انصاف فراہم کرے گی. شوگر ایسوسی ایشن کو طاقت کے بل بوتے پرماضی کی طرح کیس کو لمبا کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے گی.
وطن عزیز میں کسانوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی بڑی تنظیم پاکستان کسان اتحاد کے ایک کارکن اور کاشتکار کی حیثیت سے میں ارباب اختیار، متعلقہ حکومتی اداروں اور ہر محب وطن خاص و عام کے لیے گنے کی فی ایکڑ کاشت پر اٹھنے والے اخراجات کی تفیصیل بیان کیے دیتا ہوں تاکہ حقائق، معاملہ اور کیس کی حقیقت اور سچائی سب کے سامنے آسکے. شوگر ملز والے کے نفع کا ذکر آپ اوپر پڑھ چکے ہیں. اب آپ کسان کے نفع نقصان کو بھی ملاحظہ فرمائیں اور غیر جانبدار ہو کر انصاف سے بتائیں.
سال 2018.19فی ایکڑ گنے کی کاشت سے برداشت تک اٹھنے والے اخراجات کی تفیصیل کچھ اس طرح ہے. زمین کی تیاری،12000روپے. بیج گنا 100من،18000. بیجائی گنا لیبر،4000. 2بوری ڈی اے پی کھاد، 5600. ایک بوری ایس او پی، 4200. 8بوری یوریا کھاد،12000. سپرے دوائی مکمل،15000. 16عدد پانی بل بجلی ڈیزل وغیرہ،30000. ٹھیکہ زمین اوسط،40000. کٹائی گنا 22 روپے من، 14300.کرایہ گنا شوگر مل تک اوسط، 8500.
محترم قارئین کرام، یہ سارے اخراجات163600روپے بنتے ہیں. وطن عزیز پاکستان میں گنے کی اوسط پیداوار 650من فی ایکڑ ہےاور سرکاری ریٹ 180روپے من ہے. کسان کو فی ایکڑ آمدنی 117000روپے حاصل ہوئی. گویا کسان 46600روپے فی ایکڑ خسارے کا شکار ہوا. اگر ہم پاکستان میں گنے کی اچھی پیداوار دینےوالے ضلع رحیم یار خان کی اوسط پیداوار 750من فی ایکڑ کو سامنے رکھ کر حساب کریں تو کسان کی آمدنی 135000روپے بنتی ہے پھر بھی اسے 28600روپے نقصان کا سامنا ہے.
یہاں یہ بات بھی نوٹ فرما لیں کہ گنے کی اوسط پیداوار میں 100من کا اضافہ کرنے کے باوجود ہم نے مذکورہ بالا اخراجات میں گنے کی فی من کٹائی اور کرایہ وغیرہ کے سو من کے اضافی اخراجات شامل نہیں کیے. یہ گوشوارہ نفع نقصان ہم نے سال 2018.19کا پیش کیا ہے.حکومتی معاشی تھینک ٹینک کو میرا چیلنج ہے کہ وہ اس سے کم اخراجات کا گوشوارہ بنا کر دکھائے. زمین کا ٹھیکہ 60000روپے ایکڑ تک بھی ہے.گنے کا کرایہ جو ہم نے دس سے پندرہ روپے فی من لکھا ہے. وہ 25روپے من تک بھی ہے.
ایک زمیندار کے بیٹے کا یہ کھلا چیلینج ہے کوئی ان حقائق کو جھٹلا کر ثابت کرکے دکھائے. حالیہ سیزن سال 2019.20کی فصل کے اخراجات مہنگائی، کھادوں، بجلی ڈیزل کے ریٹ میں اضافے کی وجہ سے خاصے بڑھ چکے ہیں. جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ملاحظہ فرمائیں اور انصاف کریں. زمین کی تیاری، 16000.بیج گنا، 18000.بیجائی گنا لیبر، 4500.دو بوری ڈی اے پی 7000.ایک بوری ایس او پی 5200. یوریا8بوری، 16000.سپرے دواڑی مکمل 16500.پانی 16عدد، بل بجلی ڈیزل وغیرہ 40000.ٹھیکہ زمین اوسط، 40000.کٹائی گنا. 16250.کرایہ گنا مل تک اوسط10000روپے فی ایکڑ. یہ ٹوٹل اخراجات 189450روپے بنتے ہیں. کیونکہ گنے کا ریٹ نہیں بڑھا اس لیے کسان کی آمدنی وہی 117000روپے ہی ہے. گویا اس سال کسان کا نقصان 72450روپے بنتا ہے.
محترم قارئین کرام،، اب بتائیں گنا گناہ ہے کہ نہیں?.کسان کو گنا 250روپے من کے لگ بھگ پڑ رہا ہے جبکہ اسے صرف 180روپے من ریٹ مل رہا ہے. کسانوں کو گنے کا فی من کم ازکم ریٹ 300روپے من ملنا چاہیئے. کسان کے گنے سے شوگر ملز کم و بیش250روپے فی من کما رہی ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسان کے حق پر کب تک ڈاکہ ڈالا جاتا رہے گا. شوگر مافیا ملک کا وہ طاقت ور ترین مافیا ہے جو نہ صرف ہر دور حکومت میں اسمبلیوں کے اندر موجود ہوتا ہے. بلکہ صوبائی اور وفاقی کابینہ میں ایک بااثر اور طاقتور وجود رکھتا ہے.
اتنا منہ زور اور طاقت ور کہ عوامی نمائندگان ایم این ایز اور ایم پی ایز ان کے سامنے اپنے ذاتی مفادات اورکاموں وغیرہ کے حصول کے لیے ہمیشہ گنگے بنے رہتے ہیں. یوں کسانوں کا معاشی قتل جاری و ساری رہتا ہے. ان حالات میں کون کسانوں کو ان کی فصلات کے جائز ریٹس کا حق دلائے گا. یقینا اعلی عدلیہ ہی کسانوں کی آخری امید ہے. عمل درآمد کے لیے. ُ ُ وہ ٗ ٗ بھی اپنا کردار ادا کریں گے تب جا کر کسانوں کومعاشی درندوں سے بچایا اور حکمرانوں کو معاشی ہائی جیکروں سے نجات دلائی جا سکتی ہے.
وطن عزیز میں ایک دوسرے بڑے مافیا کا نام ٹیکسٹائل مافیا ہے. یہ دونوں باہم مل کر حکومت پر اثر انداز ہو کر کس طرح زراعت اور کسان دشمن پالیسیاں بنواتے ہیں اور بنوا رہے ہیں.کپاس کی ارداس اور روئی کے روواٹ بھی انہی کسان مخالف پالیسیوں کی وجہ سے ہیں.
آخر میں میری کسان بھائیوں سے اپیل ہے. کسانوں کو چاہئیے کہ وہ فصلات میں تھوڑا بہت رد وبدل کریں.شوگر مافیا کی فرعونیت کا سب سے بہترین حل تو ان کے اپنے پاس موجود ہے.ہر کسان گنے کی کاشت کم ازکم اگلے سال 30فیصد مزید کم کر دے.
کسان اگر شوگر مافیا کو بندے کا پتر بنانا چاہتے ہیں تو ہر گنے کا کاشتکار گنے کی پچاس فیصد کاشت کم کرے.پھر رزلٹ دیکھے. انہیں سڑکوں پر احتجاج کرنے اور عدالتوں کے چکروں میں پڑنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی. ویسے کم ازکم اعلی عدلیہ شوگر انڈسٹری میں مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے ملک بھر میں منی شوگر ملز لگانے کی اجازت عام کر دے.اس سے بھی طبعیت صاف ہو جائے گی.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر