دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"چنا چور گرم”۔۔۔ حیدر جاوید سید

اس ساری صورتحال پر مجھے بچپن میں بازاروں میں ''چناچور گرم'' کی آوازیں لگاتا خوانچہ فروش یاد آرہا ہے جس کے چنے کبھی گرم نہیں ہوئے۔

سرکار جنرل (ر) سید پرویز مشرف کاظمی دہلوی کیخلاف جناب نواز شریف کے دور میں سنگین غداری کیس کا آغاز ہوا تو ان سطور میں عرض کیا تھا۔

”اصولی طور پر یہ کیس درست ہے مگر 3نومبر کے دیگر کرداروں کو چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کیخلاف کیس دائر کرنے سے قانون وآئین کی سربلندی سے زیادہ ذاتی عناد دکھائی دے رہا ہے”۔
مشرف کے وزیرقانون اور دوسرے بہت سارے ساتھی نون لیگ کی بس میں سوار ہیں اسلئے یہ دوہرا معیار کسی وقت گلے پڑ سکتا ہے۔

پھر ہوا بھی یہی یکطرفہ فیصلے اور ایک شخص کو رگیدنے کی سوچ نے تنازعات کو جنم دیا اور بالآخر جناب نواز شریف رخصت ہوگئے۔

نواز شریف کی رخصتی کی چند دوسری وجوہات بھی ہیں۔

اولاً یہ کہ نون لیگ کی حکومت سنجیدگی کیساتھ طالبان کیخلاف کارروائی نہیں چاہتی تھی،آپریشن ضرب عضب شروع ہوگیا لیگی حکومت نے انجمن متاثرین طالبان کے بننے والے سیاسی مذہبی اتحاد کے روح رواں پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کے ادارے منہاج القرآن کیخلاف آپریشن کیا اس آپریشن کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن سے ہوئی بدنامی کا داغ دھونے کیلئے آپریشن ضرب عضب کو گود لے لیا گیا۔
سی پیک کے چند معاملات پر اختلافات تھے’ اگلے مرحلہ میں آپریشن ضرب عضب کے اخراجات کے حوالے سے ایک تنازعہ کھڑا ہوا’ لیگی حکومت نے سیاسی حکمت عملی اپنانے کی بجائے جذباتی راستے پر سر پٹ دوڑنے کی کوششیں جاری رکھیں اور خمیازہ بھگت لیا۔

اب پرویز مشرف کیس کا فیصلہ رکوانے کیلئے وفاقی وزارت داخلہ عدالت میں پہنچ چکی اور مراد بھی بر آئی ہے۔

تحریک انصاف کا معاملہ بھی ان دنوں نون لیگ جیسا ہے اس کی صفوں اور پھر وفاقی وصوبائی کابیناؤں میں قبلہ پرویز مشرف کے 60فیصد ساتھی موجود ہیں۔

وزارت داخلہ نے اپنی درخواست میں بہت سارے نکات اُٹھائے ہیں’ مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالت کے قیام کی سمری میں نقائص موجود ہیں۔ 3نومبر2007ء کو دستور معطل کئے جانے کے دوسرے کرداروں کو چھوڑ کر صرف مشرف کیخلاف کیس بنانا انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں۔

یہ بھی کہا گیا کہ پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کے مواقع نہیں دئیے گئے۔

وزارت داخلہ کو یاد نہیں رہا یا یاد رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ مشرف بیماری کی وجہ سے بیرون ملک گئے تھے عدالت نے بیرون ملک جانے کی اجازت کا معاملہ حکومت پر چھوڑا تھا۔

حکومت نے ای سی ایل سے نام نکالا اور وہ بیرون ملک روانہ ہوگئے۔

متعدد بار آنے کے اعلانات کئے، ان کے وکلاء نے عدالتوں سے ضمانتیں طلب کیں۔ ایک موقع پر سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے یہاں تک کہہ دیا کہ ”ہم حکومت کو کہہ دیتے ہیں کہ پرویز مشرف کو عدالت سے سپریم کورٹ تک درمیانی راستہ میں گرفتار نہیں کیا جائے گا”۔

وکیل نے ایک دن کی مہلت لی اور اگلے دن سماعت کے موقع پر اس عدالتی سہولت کو ناکافی قرار دیدیا۔

جنرل پرویز مشرف کے کیس میں ان دنوں تحریک انصاف پیپلز پارٹی کو نون لیگ والا طعنہ اُٹھتے بیٹھتے دے رہی ہیں ”جمہوریت پسند پیپلز پارٹی نے جنرل پرویز مشرف کو ریڈکارپٹ گارڈ آف آنر پیش کیا”۔ کیا ایوان صدر میں پیپلز پارٹی کا عمل دخل تھا؟۔

یہ ضرور ہے کہ اس وقت حکومت پیپلز پارٹی کی تھی لیکن ایوان صدر سے منصب صدارت سے مستعفی ہو کر رخصت ہونے والے سابق فوجی آمر وصدر کو گارڈ آف آنر ایوان صدر کے پروٹوکول کے مطابق دیا گیا۔
چلیں اس بحث کو چھوڑیں مروجہ سیاست اصولوں پر نہیں الزامات اور دھول اُڑانے پر ہوتی ہے،مثلاً نوازشریف کو بیماری کی وجہ سے حکومت نے بیرون ملک جانے کی اجازت دی، وزیراعظم ذاتی ذرائع سے نواز شریف کی بیماری بارے یقین دہانی کا ذکر کابینہ کے اجلاس میں کرچکے، اب حکومت کے شورٹی بانڈ کی جگہ واپسی کی تحریری ضمانت کے عدالتی فیصلے کی بھد اُڑائی جا رہی ہے۔

پچھلے چند دنوں سے چند وفاقی وزراء کورس کے انداز میں نواز شریف کی بیماری کو جعلسازی’ میڈیا کا پروپیگنڈہ اور نجانے کیا کیا کہہ رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر وفاقی وزراء کی بات درست ہے کہ نواز شریف کے میڈیکل سرٹیفکیٹ جعلی تھے تو اب تک پنجاب حکومت کے قائم کردہ تین میڈیکل بورڈز کے ڈاکٹرز صوبائی وزیرصحت محترمہ یاسمین راشد اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار پر جعلسازی اور سہولت کاری کے الزامات کے تحت کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟۔
ہم آگے بڑھتے ہیں منگل کی صبح سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔ وفاقی وزراء اور ماہرین حب الوطنی پچھلے چوبیس گھنٹوں سے آسمان سر پر اُٹھائے ہوئے ہیں مگر اس بات پر غور کرنے کو تیار نہیں کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکم نامہ جاری کرنے کا وزیراعظم کو اختیار نہیں تھا۔

پہلے وزیراعظم کا حکم نامہ آیا پھر سمری صدر مملکت کو بھجوائی گئی، اگلے مرحلہ میں یہ سمری کابینہ میں زیرغور آئی اور دوبارہ معاملہ صدر کے پاس گیا۔ یہ اور اس سمیت چند قانونی خامیاں اور بھی ہیں’
غورطلب امر یہ ہے کہ وزیراعظم کو یہ مشورہ کس نے دیا تھا کہ آپ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکم دے سکتے ہیں؟

فروغ نسیم’ بابر اعوان اور نعیم بخاری جیسے ماہرین قانون وزیراعظم کے معاونین میں شامل ہیں پھر بھی یہ بلنڈر ہوگیا۔

اب سیخ پا ہونے کی بجائے ٹھنڈے دل سے اپنی غلطی اور حکم نامہ جاری کرنے کے شوق کا جائزہ لینا چاہئے۔

اس موضوع پر یہی چند سطور کافی ہیں ہم پھر جنرل پرویز مشرف کے معاملے کی طرف پلٹتے ہیں،
3نومبر2007ء کو جب انہوں نے دستور معطل کرکے سیدھے سبھاؤ چلنے والے معاملات بگاڑے تو وہ تنہا نہیں تھے۔

دستور کی معطلی کے حکم نامے کا مسودہ ان کے وزیرقانون نے بنا کر دیا، یہ حکم انہوں نے جاری کیا۔
تحریک انصاف جو بات آج کہہ رہی ہے یہی بات اس ملک کے معروف قانون دان اور اہل دانش روزاول سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف تنہا دستور کی معطلی کے ذمہ دار نہیں تھے اس معاملے میں ان کے معاونین کو بھی شامل کیا جانا چاہئے تھا۔

کیا یہ غلط ہے کہ نون لیگ کی حکومت نے دیگر سول وعسکری معاونین کو خصوصی رعایت دینے کیلئے حکم نامہ جاری کیا اور کیس صرف مشرف کیخلاف بنایا؟

اس ساری صورتحال پر مجھے بچپن میں بازاروں میں ”چناچور گرم” کی آوازیں لگاتا خوانچہ فروش یاد آرہا ہے جس کے چنے کبھی گرم نہیں ہوئے۔

About The Author