گزشتہ دنوں ایک ادبی اکٹھ کے دوران پاکستان کی زرخیز ترین اور باشعور دھرتی پر ایک براڈکاسٹر، پروفیسر، صحافی اور مصنف کے خلاف تونسہ پولیس حرکت میں آئی۔ کچھ دیر کیلیے اُنھیں تھانے میں بند رکھا۔ بعد ازاں میڈیا اور قلم کاروں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر رِہا کر دیا۔
کُچھ اِس طرح کا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مذکورہ لکھاری کو وزیراعلٰی پنجاب سردار عثمان بزدار کے ایماء پر پولیس گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ میں اس تمام تر تاثر کی نفی کرتا ہوں کیونکہ اس وقت تک یہ ثبوت کہیں سے نہیں مِل سکے، کیونکہ ایک لکھاری کے خلاف سردار عثمان بزدار جیسی سادہ اور غیرانتقامی شخصیت قطعاً انتقام کا سوچ ہی نہیں سکتی۔
وزیرِاعلٰی عثمان بزدار کے ساتھ میری اچھی سلام دعا اور دوستی ہے۔ دوستی بھی اس قدر کہ میں نے آج تک عثمان بزدار کو دوران ملاقات کبھی بھی "سردار صاحب” کے لقب سے نہیں پکارا، لفظ "بھائی جان” پر گزارا کیا۔ ڈیرہ غازی خان میں اُن کی رہائش گاہ پر گھنٹوں ملاقات رہتی۔ سیاست پر ڈسکس ہوتی۔ باہمی دلچسپی پر بات ہوتی۔ علاقائی اور قومی سیاست زیربحث رہتی حتٰی کہ قومی و علاقائی ادب، ثقافت اور صحافت پر بھی سیرحاصل گفتگو رہتی۔
تکلف اور خوشامد برطرف۔۔ میں عثمان بزدار سے متعلق یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ وہ میرے دوست لکھاری پر پولیس گردی میں ملوث نہ ہیں اور نہ ہی وزیراعلٰی نے متعلقہ پولیس کو اس حوالے سے کوئی تحریری یا تقریری حکم دیا ہوگا۔
ہمارے خطے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہم اپنے علاقے کی ترقی دیکھنا ہی نہیں چاہتے اور نہ ہی کسی ایسی سیاسی شخصیت سے کام لینا چاہتے ہیں جو سادگی اور شرافت کے اعتبار سے مشہور اور ملنسار ہیں۔ عثمان بزدار اس وقت وزیراعلٰی پنجاب ہیں یعنی پنجاب جیسے بڑے صوبے کے چیف ایگزیکٹو۔۔۔ ہمیں چاہیے کہ ہم وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار کے ذریعے اپنے علاقے کیلیے ترقیاتی منصوبے لیں، نا کِہ اُن کے خلاف تماشہ لگائیں۔
جب سردار فاروق لغاری جیسا بدنام زمانہ جاگیردار صدر پاکستان تھا کیا ہم لوگوں نے اُن کے خلاف کوئی "پِڑ” لگایا تھا، کسی قسم کا شوروغُل کیا تھا؟ کیا یوسف رضا گیلانی کے دَورِ وزارتِ عُظمٰی کے دوران ہمارے قوم پرستوں نے کوئی دھاڑ دھاڑ کی تھی؟
کیا سابق صدر پاکستان آصف زرداری کیخلاف اس قسم کے محاذ بنائے گئے گئے تھے؟ جب ذوالفقار کھوسہ پنجاب کا گورنر تھا؟ اُس وقت بھی ہمارے دانش ور خاموش تھے۔ سردار دوست محمد کھوسہ کے دَورِ وزارتِ اولٰی کے وقت بھی ہمارے مہان دانشوروں اور قوم پرستوں کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
قلم کی حُرمت کا خیال رکھتے ہوئے قوم کے اُن مجرموں کا نام نہیں لکھنا چاہتا ورنہ اِس وقت بھی ہمارے ایسے نام نہاد قوم پرست اور دانش ور بظاہر سرائیکی صوبہ تحریک کے سرگرم کارکن کے طور پر قوم کو دھوکا دے رہے ہیں جو ہر الیکشن کے موقع پر کھوسہ، لغاری، مزاری، گورچانی، گیلانی، دریشک، کھر اور قریشی جیسے روایتی اور گدی نشین سیاستدانوں کی انتخابی مہمات کا حصہ بنتے ہیں۔
اس نمک حلالی کے بدلے میں اپنے اپنے عزیز و اقارب کیلیے پُرکشش نوکریاں اور دیگر مراعات حاصل کرتے ہیں۔ عاشق بزدار جب مہرے والا میں سرائیکی میلہ منعقد کرتے ہیں تو وہاں مرکز پرست لابیوں اور شخصیات کو بہت ہی زیادہ عزت سے نوازا جاتا ہے۔
یہاں تک کہ پیپلز پارٹی زندہ باد کے نعرے بھی سُننے کو مِلنے ہیں۔ چاپلوس اور مالی سطح پر مستحکم دانش وروں اور قوم پرست سیاستدانوں پر جان و دل نچھار کیے جاتے ہیں جبکہ حقیقی زمیں زادوں کو مکمل طور پر Ignore کر دیا جاتا ہے۔ ظہور دھریجہ کو بھی مُوردِالزام ٹھراتا ہوں کہ وہ مخصوص مرکزپرست گروہ کا مُریدِخاص ہے اور رانا فراز نون بھی عجیب ایجنڈا لے کر چل رہا ہے۔
کینیڈا میں بیٹھا آصف خان فیس بک لائیو پر ایم کیو ایم کادوسرا الطاف حسین بنا بیٹھا ہے۔ مختصر یہ کہ تونسہ کی دھرتی پر اپنے لکھاری دوست کے خلاف پولیس کی جھوٹی کارروائی کی شدید مذمت کرتا ہوں۔
یہاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی طرف سے اس واقعے پر اُن کے ازخود نوٹس کی تحسین بھی کرتا ہوں۔
آخر میں پولیس گردی کا شکار ہونے والے اپنے یار محبوب تابش سے فقط اتنی سی گزارش کہ اگر آپ سرائیکی قوم پرست ہیں تو پلیز پروفائل پکچر سے زرداری صاحب کو چلتا کریں!
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ