اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع دے دی۔
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہےکہ حکومت نے ایک موقف سے دوسرا موقف اختیار کیا، حکومت عدالت میں آرٹیکل 243 ون بی انحصار کررہی ہے اور عدالت نے آرٹیکل 243 بی کا جائزہ لیا، حکومت آرمی چیف کو 28 نومبر سے توسیع دے رہی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آرمی چیف کی موجودہ تقرری 6 ماہ کیلئے ہوگی، وفاقی حکومت نے یقین دلایا کہ 6 ماہ میں قانون سازی کی جائے گی جب کہ آرمی چیف کی مدت اور مراعات سے متعلق 6 ماہ میں قانون سازی کی جائے گی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑتے ہیں، پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی تقرری سے متعلق قانون سازی کرے۔
آج سماعت کے آغاز میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے راحیل شریف اور اشفاق پرویزکیانی کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات طلب کرلی تھیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق درخواست پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سماعت کی ۔عدالت نے حکومت کو قانونی مسئلہ حل کرنے کے لیے آج تک کی مہلت دی تھی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔ جسٹس منصور علی شاہ اورجسٹس مظہرعالم میاں خیل بھی بنچ میں شامل تھے۔
آج سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے دستاویزات بھی پیش کریں، وہ جب ریٹائر ہوئے تو اس نوٹیفیکیشن کے کیا الفاظ تھے وہ بھی پیش کریں۔
جسٹس کھوسہ نے کہا بتایا گیا کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگرجنرل ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی۔
عدالت نے کہا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں جنرل (ر)اشفاق پرویز کیانی کو ریٹائرمنٹ کے بعد کتنی پینشن ملی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیےکہ ہمیں بتایا گیا کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگرجنرل ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی۔
اس کے بعد عدالت نے سماعت میں 15 منت کا وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد دوبارہ سماعت جاری ہے ۔
سماعت کے بعد اپنے دلائل میں اٹارنی جنرل نے کہا آرٹیکل 243 کےتحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کردی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نئی تعیناتی آرٹیکل 243 ون بی کے تحت کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا،اب ہونے والی تعیناتی درست کیسے ہے؟
چیف جسٹس نے کہا سمری میں تو عدالتی کاروائی کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے، اپنا بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں،اپنا کام خود کریں ،ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں۔
جسٹس کھوسہ نے کہا عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں،سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں،تعیناتی قانونی ہے یا نہیں وہ جائزہ لیں گے۔
آج سے تعیناتی کی گئی ہے یعنی 28 نومبر سےتعیناتی کر دی گئی ہے۔ آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں۔ جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے۔
جسٹس کھوسہ نے کہا لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی ہے۔ تعیناتی ہوئی ہی آئین کے مطابق ہے،عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالیں ،صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے۔
جسٹس منصور نے کہا 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے۔
جسٹس منصور نے کہا آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق ہونی چاہیے،قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی ہوئی۔
اٹارنی جنرل نے کہا اگر مدت مقرر نہ کریں تو تاحکم ثانی آرمی چیف تعینات ہو گا۔
چیف جسٹس نے کہا آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب آپ نے سینے سے لگا کر رکھی ہے،آرمی رولز بھی کتاب پر لکھا ہے غیر متعلقہ بندا نہ پڑھے،اس معاملے پرابہام دور کرنے کا فورم کون سا ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا ابہام دور کرنے کا فورم وفاقی حکومت ہے،
چیف جسٹس نے کہا پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا،کوئی دیکھ نہیں کہ کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے،کس قانون کے تحت کوئی کام ہو رہا ہے،اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے،آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا۔
چیف جسٹص نے کہا آئین کی کتاب ہمارے لیے بہت محترم ہے،اسی کتاب سے ہم مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا آئین کی کتاب ملک کےلیے بائبل کی حیثیت رکھتی ہے،سمری میں تنخواہ،مراعات اورمدت ملازمت واضح کردیں گے۔
اس موقع پر ججز نے آپس میں مشاورت بھی کی ۔
چیف جسٹس نے کہا آپ نے پہلی دفعہ کوشش کی ہے کہ آئین پرواپس آئیں،اس معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ نہیں دینا چاہیے۔ کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے ایجنٹ کہا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا،ہمیں 5th جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا ،وہ ہماراحق ہے کہ سوال پوچھیں۔
جسٹس منصور نے کہا اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھیں ہونگے،آپ تجویز کریں آرمی قوانین کو کیسے درست کریں۔
چیف جسٹس نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دے کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارا کندھا استعمال کیا جارہا ہے،ہم کبھی بھی مشکل نہیں رہے،ہم ہمیشہ آئین اور قانون کی پابندی کرنے والے رہے ہیں،آرٹیکل 243 کے تحت جو سمری آپ نے بنائی ہے اس میں 3 سال مدت ملازمت لکھ دی ہے،اب آپ نے 243 کی شق پرمہرثبت کردی کہ توسیع 3 سال کےلیے ہوگی۔
جسٹس کھوسہ نے مزید کہا کہ مدت نوٹیفکیشن میں 3 سال لکھی گئی ہے،اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے،ایک واضح نظام ہونا چاہیے جس کا سب کو علم ہو، 3 سال تعیناتی اب ایک مثال بن جائے گی،.ہو سکتا ہے اگلے آرمی چیف کو حکومت ایک سال رکھنا چاہتی ہو۔
اٹارنی جنرل نے کہا ہمارے پاس الجہاد ٹرسٹ کی مثال موجود ہے،اس کیس میں اس کا حوالہ دینا ضروری ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کہا واضح ہونا چاہیے جنرل کو پینشن ملتی ہے یا نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہو جاتا ہے۔
جسٹس منصور نے کہا کل آپ کہہ رہے تھے جنرل جنرل ریٹائر نہیں ہوتا،پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کر سکے۔
چیف جسٹس نے کہا پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپڈیٹ کرے تو نئے رولز بنیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا آئین میں 18 مختلف غلطیاں مجھے نظر آتی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا غلطیوں کے باوجود آئین ہمیں بہت محترم ہے۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ یہ بھی طے کر لیا جائے آئیندہ توسیع ہو گی یا نئی تعیناتی؟
اٹارنی جنرل نے کہا آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر ضروری تبدیلیاں کریں گے۔
جسٹس منصور نے کہا پارلیمنٹ سے بہترکوئی فورم نہیں جو سسٹم کو ٹھیک کرسکے
چیف جسٹس نے کہا حکومت پہلی بار آئین پر واپس آئی ہے،جب کوئی کام آئین کے مطابق ہو جائے تو ہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں،عدالت کا کندھا استعمال نہ کریں،آئندہ کے لیے بھی سپریم کورٹ کا نام استعمال ہو گا،آرٹیکل 243 میں 3 سال تعیناتی کا ذکر نہیں،3 سال کی تعیناتی کی مثال ہو گی لیکن یہ قانونی نہیں،عدالت نے توسیع کر دی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا جہاں مدت کا ذکر نہ ہو وہاں حالات کے مطابق مدت مقرر ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا لگتا ہے تعیناتی کےوقت حکومت نے آرٹیکل 243 میں پڑھتے ہوئے اس میں اضافہ کر دیا،ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ابھی جا کر قانون بنا کرآئیں،جوقانون 72 سال میں نہیں بن سکتا وہ اتنی جلدی میں نہیں بن سکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت میرے پاس کوئی بھی قانون نہیں سوائے ایک دستاویزکے ، ہم کوشش کررہے ہیں کہ اس معاملے پر کوئی قانون بنائیں۔
عدالت نے پوچھا قانون بنانے میں کتنا وقت لیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا ہمیں 3 ماہ کا وقت چاہیے۔
چیف جسٹس نےپوچھا جو دستاویزات صبح منگوائی تھیں وہ آئی ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا جی ایچ کیو میں کہہ دیا ہے وہ کچھ دیر میں آجائیں گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس آتا کوئی بھی نہیں،پہلی بار ریاض حنیف راہی آیا ہے اس کوچھوڑیں گے نہیں،سب کہتے ہیں عدالت ازخود نوٹس لے۔
جنرل ریٹائرڈ کیانی اور راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کردیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا جنرل کیانی کے نوٹیفکیشن میں بھی نہیں لکھا کہ توسیع کس نے دی؟
اٹارنی جنرل نے کہا نوٹیفکیشن سے پہلے سمری تیار کی جاتی ہے،
چیف جسٹس نے کہا جن جن لوگوں نے ملک کی خدمت کی وہ ہمارے لیے محترم ہیں، آئین اورقانون سب سے مقدم ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کہا آپ قوانین 3 ماہ میں تیار کرلیں گے؟اگر 3 ماہ میں قوانین تیار ہوگئے تو پھر آرمی چیف کو 3 ماہ کی توسیع مل جائے گی،کیا ہم آپ کی بات پرلکھ دیں کہ 3 ماہ میں قوانین بنادیں گے؟
اٹارنی جنرل نے کہا آپ اپنے فیصلے میں مدت کا تعین نہ کریں وہ کام ہم کرلیں گے،قوانین بنانے کے بعد انہیں پارلیمنٹ میں بھی پیش کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا آرمی چیف کو توسیع دیناآئینی روایت نہیں،گزشتہ 3 آرمی چیف میں سے ایک کو توسیع ملی دوسرے کو نہیں۔ اب تیسرے آرمی چیف کو توسیع ملنے جا رہی ہے،آرٹیکل 243 کے مطابق تعیناتی کرنی ہے تو مدت نکال دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کم از کم آرٹیکل 243 پر تو مکمل عمل کریں،نہ تنخواہ کا تعین کیا گیا نہ ہی مراعات کا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ غیر معینہ مدت کے لیے بھی تعیناتی نہیں ہو سکتی۔
چیف جسٹس نے کہا پہلے بھی جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت کے لیے تعینات کیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیا قانون بنانے کے لیے وقت لگے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے 72 سال میں قانون نہیں بنا اتنی جلدی کیسے بنائیں گے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوشش کریں گے جلدازجلد 3 ماہ میں قانون سازی کر لیں۔آرمی چیف سے متعلق الگ قانون بنایا جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا ہم نے آئین و قانون کو کیا دیکھا ہمارے خلاف پراپیگنڈہ شروع ہوگیا،کہہ دیا گیا کہ یہ تینوں جج سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں،الزام لگایا گیا کہ ہم بھارت کی ایما پر کام کررہے ہیں، کہا گیا کہ یہ ففتھ جنریشن وار ہے،ہمیں پوچھنا پڑا کہ یہ ففتھ جنریشن وار ہوتی کیا ہے؟کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کو بھارتی چینلز پر چلایا جارہا ہے، آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوشل میڈیا کسی کے کنڑول میں نہیں،
چیف جسٹس نے کہا آپ تین سال کے لیے توسیع دے رہے ہیں،کل کوئی قابل جنرل آئے گا تو پھر کیا اسے تیس سال کے لیے توسیع دیں گے؟
جسٹس مظہر عالم نے کہا پہلے تو کسی کو ایک سال کسی کو دو سال کی توسیع دی گئی۔
جسٹس منصور نے کہا کل ہم کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائر ہوتے ہیں،آپ کہہ رہے تھے کہ نہیں ہوتے،پھر آج کہہ رہے ہیں کہ ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا آرمی ایکٹ میں ابہام ہے۔
جسٹس منصور نے کہا پارلیمنٹ کو اس ابہام کو دور کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا آپ رولز میں ترمیم کرتے رہے ہیں،پھر ہم نے ایڈوائزری کردار لکھ دیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا فروغ نسیم کا بھی مسئلہ حل ہو گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا عدالت کی مداخلت سے مسئلے حل ہو جائیں گے،ہمارے پاس ریاض راہی آئے ہم نے جانے نہیں دیا،لوگ کہتے ہیں عدالت خود نوٹس لے ،ہمیں جانا نہ پڑے۔ عدالت کے دروازے کھلے ہیں کوئی آئے تو سہی؟
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آرمی چیف کے حوالے سے تیار کی گئی سمری میں ہمارا ذکر بالکل نہ کریں،یہ کام وزارت دفاع کا ہے،وزارت دفاع کی جانب سے جو سمری آئی ہے اس میں سپریم کورٹ کا ذکر ہے،ہمارا ان سمریوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا سمری سے عدالت سے متعلق لکھا ہوا حذف کردیں۔
چیف جسٹس نے کہا ہم نے جن غلطیوں کی نشاندہی کی آپ نے انہیں بہتر کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا جو حصہ عدالت نے حذف کرنا ہے کردے،باقی ہم صحیح کرلیں گے۔
جسٹس منصور نے کہا ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ مدت ملازمت کا تعین قوانین کے مطابق کریں۔
چیف جسٹس نے کہا آپ نے سمری میں 243 کا شق کا حوالہ دے کر3 سال کی مدت لکھ دی ہے، سمری میں جس آئین کا ذکر ہونا چاہیے،وہ ہے ہی نہیں۔
فروغ نسیم نے کہا عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ 243 میں بہتری کرلیں گے،حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ آرٹیکل 243 میں تنخواہ،الائونس اور دیگر چیزیں شامل کریں گے۔
فروغ نسیم نے کہا اس کا بیان حلفی بھی دینے کےلیے تیار ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا آپ ہمیں بیان حلفی دیں کہ 6 ماہ میں قانون میں ترمیم کردیں گے،قانون میں ترمیم چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرریر،دوبارہ تعیناتی اور توسیع سے متعلق ہوگی آپ سمری سے 3 سال کی مدت ملازمت کے الفاظ حذف کریں گے۔
کیس کی سماعت میں ایک بجے تک وقفہ کردیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا ایک بجے تک سمری بہتر طریقے تک تیار کرکے لے آئیں۔ اس دوران دس رکنی فل کورٹ بیٹھے گا تب تک آپ سمری تیار کرکے لے آئیں،اگر تاخیر کریں گے تو اس کے ذمے دار آپ ہوں گے،جو کچھ کارروائی میں ہوا ہے ہم ریکارڈ کا حصہ بنا دیں گے، شام کو مختصر آرڈر جاری کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہاآئین کو بار بار پڑھتے ہیں تو نئی چیز کھل جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا ہم تو پہلی بار پڑھتے ہیں تو کچھ نکل آتا ہے،
جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ہدایت کی کہ سمری نوٹیفکیشن میں عدالت عظمی کا ذکر نہ کریں،میرا ذکر غیر ضروری ہے،سمری میں عدالت کو بھی بریکٹ میں ڈال دیا گیا،۔ عدالت عظمی کا سمری سے کوئی تعلق نہیں ۔
اٹارنی جنرل نے کہا عدالت ان الفاظ کو حذف کر دے۔
چیف جسٹس نے کہا آپ تو کہتے ہیں کہ حکومت نے کوئی غلطی نہیں کی۔ شام کو مختصر فیصلہ جاری کریں گے، 6 ماہ میں قانون سازی نہ ہوئی تو کیا تقرری غیرقانونی ہو جائے گی؟6 ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کر لیں۔
چیف جسٹس نے کہا آج ہی سمری لے آئیں ، تین نقاط کا بھی خیال رکھیں ، سمری سے سپریم کورٹ کا ذکرختم کریں ، ٹین سال کی مدت کو بھی ختم کریں ، چھ ماہ میں قانون سازی کرنے کا بیان حلفی دیں۔
فروغ فروغ نسیم نے ایک بجے تک کی مہلت کی استدعا کی تو عدالت نے سماعت میں ایک بجے تک کا وقفہ کردیا ۔
چیف جسٹس نے کہا آپ نے جو تبدیلیاں کرنی ہیں کرلیں ،ہمارے پاس رات12 بجے تک کا وقت ہے ، آرمی چیف ملک کےدفاع پر نظررکھےیا آپ کےساتھ بیٹھ کرقانونی غلطیاں دورکرے؟
یہ بھی پڑھیں:وفاقی کابینہ نے آرمی چیف دوبارہ تعیناتی کی نئی سمری منظور کرلی
دوسری طرف بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے وکالت نامے کی بحالی کے لئے پاکستان بار کونسل کو درخواست دی جو منظور کرلی گئی۔
فروغ نسیم لائسنس کی بحالی کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجہ کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔
سابق و زیر قانون فروغ نسیم آج عدالت میں حکومتی موقف کا دفاع کریں گے۔ گزشتہ روز عدالت نے فروغ نسیم کو بار کونسل کے ساتھ وکالت نامےکا معاملہ حل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
گزشتہ روز اس کیس کی سماعت کے دوسرے دن اٹارنی جنرل انور منصور خان نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 255 میں ایک ایسا لفظ ہے جو اس معاملے کا حل ہے، اس آرٹیکل میں حالات کے تحت اگر ریٹائرمنٹ نہ دی جاسکے تو دو ماہ کی توسیع دی جاسکتی ہے۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے آرٹیکل 255 جس پر آپ انحصار کررہے ہیں وہ تو صرف افسران کے لیے ہے۔ جس میں آپ نے ترمیم کی وہ تو آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں، یہ آرٹیکل تو صرف افسران سے متعلق ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر جنگ ہو رہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جا سکتی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور