ڈی جی خان میں ہسپتال کا نام وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے والد کے نام پر رکھنے کی بات کرنا عجیب وغریب اور افسوسناک ہے۔ ان کے والد مرحوم کی کیا خدمات ہیں علاقے کے لئے اور کیا عثمان بزدار وزیراعلیٰ نہ بنتے تو کوئی خواب میں بھی اس حماقت کا سوچ سکتا؟
ویسے حیرت ہے کہ اتنی احمقانہ تجویز پیش ہی کیوں کی گئی؟ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اس عامیانہ، سطحی تجویز کی مخالفت کرنی چاہیے۔
ویسے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو بھی اس پر تنقید کرنی چاہیے، مخالفت کرنی چاہیے، مگر پہلے صرف یہ معلوم کر لیں کہ میاں نواز شریف کے نام پر کتنے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں کے نام رکھے جا چکے ہیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو تو ایک طرف ، خود ان کے بچوں کے نام پر سندھ میں کتنے اداروں کے نام رکھے جا چکے ہیں۔
مجھے تو خیر ابھی تک یقین نہیں آ رہا، مگر پچھلےد نوں خبروں میں سنا کہ زراری صاحب کی سب سے چھوٹی بیٹی آصفہ کےنام پر لاڑکانہ کے کسی معروف ادارے کا نام رکھا جا چکا ہے۔ حیرت ہے کہ ایسے احمقانہ فیصلے کرنے کی ہمت کیسے آ جاتی ہے؟
بہرحال پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے کارکنوں میں جتنی ’’اخلاقی عظمت‘‘ موجود ہے، اس کے پیش نظر یقین کامل ہے کہ وہ ڈی جی خان میں فتح خان بزدار ہسپتال کے نام کی مخالفت کریں گے۔ یہ کام ویسے تحریک انصاف کے کارکنوں، حامیوں کو کرنا چاہیے کہ تبدیلی لانے کا خواب ان کا ہے۔ سٹیٹس کو کی علمبردار گھسی پٹی ، روایتی جماعتوں کے کارکن تو اس جوہر سے بھی محروم ہیں۔
عثمان بزدار کو مشورہ دینا چاہیے کہ جو لوٹ بازار آج کل ان کے گھرانے نے گرم کر رکھاہے، اس آمدنی سے ایک خیراتی ہسپتال بنائیں اور پھر اس کا نام خوشی سےوالد صاحب کے نام پر رکھیں۔ سرکاری پراجیکٹس کو اس کا نشانہ نہ بنائیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ