سپریم کورٹ نےآرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کانوٹیفکیشن معطل کردیا
عدالت عظمیٰ نےآرمی چیف اوردیگرفریقین کونوٹس جاری کردیئے
سپریم کورٹ نےکیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی
حکومت نے19اگست کو جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں3سال کی توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا
سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر از خود نوٹس بھی لے لیا۔
سماعت کا احوال
آرمی چیف کی ایکسٹنشن کیخلاف درخواست پر سماعت
سپریم کورٹ نے ریاض حنیف راہی کی درخواست واپس لینے کی درخواست مسترد کردی
ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک درخواست موصول ہوئی ہے، چیف جسٹس
درخواست گزار اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ موجود ہے، چیف جسٹس
درخواست کے ساتھ کوئی بیان حلفی بھی موجود نہیں ہے، چیف جسٹس
ہمیں معلوم نہیں یہ درخواست آزادانہ طور پر دی گئی یا بغیر دباؤ کے، چیف جسٹس
ہم واپس لینے کی درخواست کو نہیں سنیں گے، چیف جسٹس
صدر نے 19 اگست کو توسیع کی منظوری دی,چیف جسٹس
21 اگست کو وزیر اعظم نے کیسے منظوری دے دی,چیف جسٹس
سمجھ نہیں آرہا صدر کی منظوری کے بعد وزیر اعظم نے دوبارہ کیوں منظوری دی,چیف جسٹس
کابینہ کی منظوری کے بعد وزیر اعظم نے دستخط کیے,اٹارنی جنرل
کابینہ اور وزیر اعظم کی منظوری کے بعد کیا صدر نے دوبارہ منظوری دی,چیف جسٹس
صدر مملکت نے کوئی منظوری نہیں دی,اٹارنی جنرل
حتمی منظوری تو صدر نے دینا ہوتی ہے,چیف جسٹس
صدر نے کابینہ سے پہلے جو مننطوری دی وہ شاید قانون کے مطابق صحیح نہ ہو,چیف جسٹس
21 اگست کو کابینہ کے سامنے آپ نے صدر صاحب کو رکھا دیا,چیف جسٹس
ہم صدر مملکت سے دوبارہ منظوری لے سکتے ہیں,اٹارنی جنرل
انیس تاریخ کو وزیراعظم کو بتایا جاتا ہے کہ آپکا اختیار نہیں. چیف جسٹس
پھر معلوم ہوتا ہے کہ صدر اور وزیراعظم دونوں کا اختیار نہیں. فیصلہ کابینہ نے کرنا ہے. چیف جسٹس
اکیس اگست کو معاملہ کابینہ کو بھجوا دیا جاتا ہے. چیف جسٹس
وفاقی کابینہ کے صرف گیارہ وزراء نے آرمی چیف کی توسیع کی منظوری دی۔ عدالت میں انکشاف
یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کابینہ اکثریت نے منظوری دی۔ چیف جسٹس
پچیس میں سے گیارہ وزرا کے ناموں کے سامنے ‘یس’ لکھا گیا. چیف جسٹس
جمہوریت میں یہ فیصلے اکثریت رائے سے ہوتے ہیں. چیف جسٹس
جن ارکان نے جواب نہیں دیا, انکا انتظار کرنا چاہئیے تھا. چیف جسٹس
ان ارکان نے ‘ناں’ بھی تو نہیں کئ. چیف جسٹس
کیا حکومت کابینہ ارکان کی خاموشی کو "ہاں” سمجھتی ہے؟ چیف جسٹس
کیا نوٹیفیکیشن کابینہ سے منظوری کے بعد وزیراعظم سے ہوتے ہوئے صدر تک نہیں جانا چاہئیے تھا. چیف جسٹس
آرٹیکل 255 کے تحت ازسر نو تقرری کا اختیار نہیں. توسیع کا ہے. چیف جسٹس
سمری میں توسیع کا لفظ استعمال کیا گیا جبکہ ازسر نو تقرری کی جا رہی ہے. چیف جسٹس
کابینہ نے جاری شدہ نوٹیفکیشن کی تاریخ سے توسیع کی منظوری دی، چیف جسٹس
قانون میں توسیع کے لیے کوئی شق ہے، جسٹس منصور علی شاہ
آرمی چیف نے 3 ریٹائرڈ افسران کو سزا دی، چیف جسٹس
افسران کی ریٹائرمنٹ معطل کرکے انکا ٹرائل کیا گیا اور سزا دی گئی، چیف جسٹس
کابینہ میں توسیع کی کوئی وجوہات زیر بحث نہیں آئی، جسٹس منصور علی شاہ
کیا کابینہ نے توسیع کی منظوری دیتے ہوے اپنا زہین اپلائی کیا، جسٹس منصور علی شاہ
توسیع کی منظوری سرکولیشن سے کابینہ سے لی گئی، چیف جسٹس
آرمی چیف کی توسیع کی ٹرم فکس کیسے کر سکتے ہیں، چیف جسٹس
یہ اندازہ کیسے لگایا گیا کہ 3 سال تک ہنگامی حالات رہیں گے، چیف جسٹس
ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس
3 سال کی ابتدائی آرمی چیف کی توسیع کسی رول کے تحت ہوتی، چیف جسٹس
آرمی چیف کی توسیع کا رول آپ نہیں دکھا رہے، چیف جسٹس
*چیف جسٹس نے آرمی چیف کی توسیع سے متعلق درخواست کوازخودنوٹس میں تبدیل کردیا*
*ہمارے سامنے درخواست گزار آیا نہ اس کا بیان حلفی،چیف جسٹس*
*عوامی مفاد کا معاملہ ہے،چیف جسٹس*
*معلوم نہیں درخواست گزار درخواست واپس لینا چاہتا ہے یا نہیں،چیف جسٹس*
*درخواست گزار خودپیش ہوا نہ اس کا وکیل،چیف جسٹس*
*سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی توسیع کا حکومتی نوٹیفکیشن معطل کردیا*
*سماعت کل تک ملتوی*
سپریم کورٹ/عدالتی حکمنامہ
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو باضابطہ فریق بنا لیا گیا
جنرل قمر جاوید باجوہ کو نوٹس جاری، جواب طلب
وزارت دفاع اور وزارت دفاع اور وفاق ی حکومت کو بھی نوٹس جاری
حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری پیش کی، حکمنامہ
وزیراعظم نے 19 اگست کو اپنے طور پر تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، حکمنامہ
نوٹیفکیشن کے بعد غلطی کا احساس ہوا اور وزیراعظم نے صدر کو سمری بھجوائی، حکمنامہ
صدر نے 19 اگست کو ہی سمری کی منظوری دیدی، حکمنامہ
عدالت کو بتایا گیا کہ علاقائی سکیورٹی کی صورتحال کے ہیش نظر آرمی چیف جو توسیع دی جا رہی ہے، حکمنامہ
علاقائی سکیورٹی سے نمٹنا فوج کا بطور ادارہ کام ہے کسی ایک افسر کا نہیں، حکمنامہ
علاقائی سکیورٹی کی وجہ مان لیں تو فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا، عدالت
اٹارنی جنرل مدت ملازمت میں توسیع یا نئی تعیناتی کا قانونی جواز فراہم نہ کر سکے، عدالت
آرمی رولز کے تحت صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے، عدالت
ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل کرنا چھکڑا گھوڑے کے آگے باندھنے والی بات ہے، عدالت
کیس میں اٹھنے والی تمام نکات کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، عدالت
آرمی چیف، وفاقی حکومت، وزارت دفاع کو نوٹس جاری، مزید سماعت کل ہوگی
وفاقی کابینہ کے 25 میں سے صرف 11 ارکان نے توسیع کی منظوری دی، عدالت
صدر کی منظوری کے بعد معاملہ کابینہ میں پیش کیا گیا، عدالت
کابینہ کے بعد سمری عزیراعظم اور صدر کو پیش نہیں کی گئی، عدالت
عدالت نے کیس کو مفاد عامہ قرار دیتے ہوئے سماعت کیلئے منظور کر لیا
عدالت نے درخواست گزار کی عدم پیروی کے باوجود ایک سو چراسی تین کے تحت معاملے کو قابل سماعت قرار دےدیا
اٹارنی جنرل نے قانون کی کوئی ایسی شق نہیں بتائی جس میں چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت میں توسیع دوبارہ تعیناتی کی اجازت ہو ،عدالت
وزیر اعظم نے خود آڈر پاس کر کے موجودہ آرمی چیف کو ایک سال کی توسیع دی ،عدالت
آرٹیکل 243 کے تحت صدر مجاز اتھارٹی ہوتا ہے ، عدالت
اٹارنی جنرل کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس اختیار ہےکہ سروسز چیف کومدت ملازمت میں توسیع دے،عدالت
اٹارنی جنرل کی جانب سے خطے کی سیکیورٹی صورت حال والی بات عمومی ہے ،عدالت
خطے کی صورتحال والی بات پر تو کوئی بھی افسر کہہ سکتا ہے کہ میری مدت ملازمت میں توسیع کی جائے،عدالت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور