ایک پوری نسل سوشل میڈیا کے میدانوں میں اٙت اٹھائے ہوئے جو جی میں آتا ہے منہ بھر کے کہہ دیتی ہے۔ اس نزدیک درپیش مسائل کے ذمہ دار فقط سیاستدان ہیں وہ بھی ان کی مخالف فکر کے۔ صحافی سارے چور‘ اور لفافہ خور ہیں‘جمہوری عمل سے نفرت کے سائے میں پل کر جوان ہوئی اس نسل کو کون سمجھائے کہ سیاست میں کرپشن غیر سیاسی حکمران لائے۔
اچھا کیا یہ نسل جس کی پیروکار ہے وہ دیوتا ہے؟ ہزار کج اور عیب ہیں مگر اپنی لسی کو کھٹا کون کہتا ہے۔ ثانیاً یہ کہ چار فوجی حکمرانوں کی آل اولاد اور طبلچیوں کے پاس جو دھن ہے وہ کہاں سے اور کیسے آیا۔ کوئی ان کے خاندانی پس منظروں سے آگاہ ہے۔
چلیں چھوڑیں سیاستدان جانے اور ان کے تازہ انصافی ناقدین‘ ہم اہل صحافت کی بات کرتے ہیں جن پر ان دنوں ہر ہما شما کوڑے برسانے میں مصروف ہے۔ ساعت بھر کے لئے رک کریہ سمجھ لیجئے کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کا دستور کہتا ہے کہ صحافی وہ ہے جس کا کچن قلم مزدوری یعنی اخباری ملازمت سے ملی اجرت سے چلتا ہو۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ ذہن میں رکھئے کہ تحریر نویس فقط قلم مزدوروں کا مقدمہ پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے میڈیا منیجروں‘چھاتہ برداروں اور مختلف طریقے آزماتے گھس بیٹھیوں کا نہیں۔
پاکستان کے قلم مزدوروں نے آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے لئے پچھلے اکہتر سالوں میں شاندار اور پر عزم جدجہد کی۔
قلم مزدوروں پر پہلا ریاستی حملہ اولین مارشل لاء کے دور میں ہوا جب ایوب خان کی حکومت نے میاں افتخار الدین کے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے زیر انتظام شائع ہونے والے اردو اور انگریزی کے اخبارات اور ہفت روزہ لیل و نہار پر قبضہ کرکے ان کا انتظام سرکاری ادارے این پی ٹی (نیشنل پریس ٹرسٹ) کے سپرد کردیا۔ اس دوران ایک دوسرے اردو اخبار کو بھی سرکاری تحویل میں لے کر این پی ٹی کے حوالے کردیاگیا۔ فیض احمد فیض‘ حمید اختر‘ سید سبط حسن احمد ندیم قاسمی ولی محمد واجد اور ان معتبر حضرات جیسی قد آور شخصیات پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات و جرائد سے منسلک تھیں۔
بدترین حالات اور تین اعلانیہ مارشل لائوں( ایوب‘ یحییٰ اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار) کے دوران پاکستانی اخبارات و جرائد سے منسلک قلم مزدوروں نے آزادی اظہار اور قلم کی حرمت کے تحفظ کے لئے بے مثال قربانیاں دیں۔ ایوبی آمریت کے عشرے میں پی ایف یو جے نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں بدترین ریاستی دبائو کا جرأت مندی سے مقابلہ کیا۔
ہمارے دائیں بازو کے دوست ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جماعت اسلامی کے ہمنوا اخبار و جرائد کے خلاف ہوئے ریاستی اقدامات کا رونا تو بہت روتے ہیں لیکن کبھی ان اخبارات وجرائد میں بھٹو، ان کی والدہ اور خاندان کے بارے شائع ہونے والی سوقیانہ خبروں اور مضامین کا تذکرہ نہیں کرتے
یہ بھی بجا ہے کہ رجعت پسند اخبارات وجرائد کی زبان دانیوں کا جواب غلط انداز میں دیا گیا۔
جنرل ایوب خان کے دور میں حکومت میں اردو اخبارات و جرائد سے زیادہ مشرقی پاکستان سے شائع ہونے والے بنگالی زبان کے اخبارات و جرائد کو ریاستی دبائو کا سامنا رہا۔ یحییٰ خان کے دور میں ان کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی خان نے جماعت اسلامی کی ہمنوائی میں تازہ تخلیق شدہ نظریہ پاکستان کے منکرین کو آڑے ہاتھوں لیا۔
ضیاء الحق کے تیسرے مارشل لاء میں اہل صحافت پر جو گزری وہ لمبی داستان ہے۔ ’’ مساوات‘‘ کی بندش کے خلاف چلنے والی تحریک کو ریاستی طاقت سے کچلا گیا۔ ناصر زیدی‘ اقبال جعفری اور خاور نعیم ہاشمی کو قید و کوڑوں کی سزائیں دی گئیں۔
قلم مزدوروں پر روزگار کے دروازے بند کئے گئے۔ جمہوریت پسند قلم مزدوروں میں بہت سوں نے اس دور میں کورنگی کریک کیمپ ‘ شاہی قلعہ لاہور‘ قلعہ اٹک اور قلعہ بالا حصار پشاور میں سرکار کی مہمان نوازی سے لطف اٹھایا۔
سرکاری بیانئے کو روشن پاکستان کی علامت کے طور پر پیش کرنے والوں نے جنرل ضیاء الحق کے عہد کو اسلام کی نشاط ثانیہ کے دور کے طور پر پیش کیا۔
مگر اس عہد میں 15 صحافیوں کو ایک سے تین سال کی سزائیں ہوئیں‘ جرمانے الگ۔ ان پندرہ میں سے سات نے شاہی قلعہ اور دوسرے عقوبت خانوں میں چھ ماہ سے اٹھارہ ماہ تک ریاستی جبر و تشدد کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
بات بات پر صحافیوں کو چور لفافہ خور دلال اور بے غیرت کہنے والوں سے کوئی دریافت کرے کہ صاحب آپ نے چوری کرتے رنگے ہاتھوں سے پکڑا‘ لفافہ خود دیا؟۔
جواب میں مزید گالیاں سننے کو ملیں گی۔
اہل صحافت کے لئے اس ملک میں کبھی مثالی دور نہیں رہا کل نہ آج۔ دبائو تھا اور ہے۔ اس کے باوجود کہ اپنے سوا ہر شخص کو چور کہنے والی نسل کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس صورتحال کی ذمہ داری ان پروپیگنڈہ بازوں پر ہے جو بعض اداروں کے مفادات کو قومی شعور کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
پاکستانی صحافت کے قلم مزدوروں نے بد ترین تشدد‘ طویل بیروزگاریوں‘ قید و بند کی صعوبتوں کے د وران جوابی گالی دی نہ آج پلٹ کر سخت لفظ کہا۔ وجہ یہی ہے کہ قلم مزدوروں کی اکثریت جانتی سمجھتی ہے کہ انجمن متاثرین مطالعہ پاکستان سے شکوہ فضول ہے۔
چند میڈیا منیجروں‘ چھاتہ برداروں اور گھس بیٹھیوں سے آگے بھی صحافت کا جہاں آباد ہے۔ کبھی ان قلم مزدوروں سے ملیئے اور ملاقات کیجئے ان کے دکھ اور مسائل جاننے کی شعوری کوشش بھی پھر آپ جان سکیں گے قلم مزدوروں کی اکثریت کے گھروں میں تو پورا سال بلکہ سالہا سال رمضان المبارک مقیم رہتا ہے۔
سر تسلیم خم کچھ کج ادائیاں بھی ہیں لیکن اکثریت آج بھی قلم اور لفظوں کی حرمت پر یقین رکھتی ہے۔ بد ترین استحصال اور مسائل کے باوجود ثابت قدمی کے ساتھ فرائض کی بجا آوری ان کا مقصد حیات ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا منیجروں‘ درباریوں‘ گھس بیٹھیوں اور قلم مزدوروں کے کردار و عمل کو الگ الگ کرکے دیکھا اور سمجھا جائے۔
"ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں”
نوٹ
ایک سال قبل لکھی گئی تحریر قند مقرر کے طور پر کیونکہ قلم مزدوروں کے حالات آج پچھلے سالوں کے مقابلہ میں بدتر ہوچکے ہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ