نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محلوں کی گمشدہ لائبریریاں ۔۔۔وجاہت علی عمرانی

انسانی ذہن خیالات اور یادوں کی آماج گاہ ہے۔ خیالات خوش کُن بھی ہوتے ہیں اور اندوہناک بھی، یادیں سہانی بھی ہوتی ہیں اور غمناک بھی

محلوں کی گمشدہ لائبریریاں
۔۔۔وجاہت علی عمرانی

انسانی ذہن خیالات اور یادوں کی آماج گاہ ہے۔ خیالات خوش کُن بھی ہوتے ہیں اور اندوہناک بھی، یادیں سہانی بھی ہوتی ہیں اور غمناک بھی۔ البتہ بچپن اور نوجوانی کا زمانہ چونکہ بے فکری و بادشاہی کا ہوتا ہے، اس میں انسان ابھی رنج و الم سے متعارف نہیں ہوا ہوتا،

اس لیے بچپن اور نوجوانی کی یادیں عام طور پر سہانی ہی ہوتی ہیں۔ چنانچہ اکثر لوگ اپنے بچپن اور نوجوانی کو یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں اور اس دور میں واپس جانے کی خواہش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

جس طرح ہم اپنے حسین ماضی، ثقافت، رسم و رواج، ادبی محفلوں اور روائتی کھیل تماشوں کو یاد کر کے نمدیدہ ہوجاتے۔ لیکن کبھی کبھی میں اس سوچ اور فکر میں پڑ جاتا ہوں کہ ہمارا تو شاندار ماضی ہے، لیکن آج کی نسل کا کیا ماضی ہو گا ؟

کیونکہ رسم و رواج دم توڑ گئے، ثقافت آخری سانسیں لے رہی ہے، روائتی کھیل تماشے ڈھونڈے نہیں ملتے، ادبی ماحول گمنام ہو گیا، امن، یکجہتی اور محبتوں اکٹھ ناپید ہو چکے ہیں، آخر ہمارے بچے کس کو یاد کریں گے؟

ان کا ماضی کیا ہوگا؟ انہوں کیا دیکھا؟ کچھ بھی نہیں۔ ہاں یہ نام نہاد ترقی دیکھی، موبائل اور انٹر نیٹ دیکھا، اکٹھ کی بجائے تنہاہی،

رابطوں اور واسطوں کے بجائے ایس ایم ایس اور واٹسایپ، ملنے ملانے اور تیمارداری کی بجائے فیس بک پوسٹ پر کمنٹس۔ واقعی عصر حاضر میں ہونے والی جدید ایجادات کے باعث جہاں انسانی زندگی آسان ہوئی وہیں کچھ اہم روایات اور ثقافتیں معدوم ہوگئیں،

جن میں سب سے اہم ہمارے گلی محلوں میں چھوٹی چھوٹی دکانوں میں قائم لائبریریز یعنی کتب خانے۔ حالات کے ستم، ترقی کی دوڑ،

بڑی بڑی ڈگریوں کا حصول لیکن علمی فقدان اور افراد کی معاشی مشکلات بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان لائبریریوں کا وجود اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔

کبھی ہمارے شہر کے ہر محلےاور گلی میں ایسی کم از کم تین سے چار لائبریریاں ہوا کرتی تھیں اور ہماری ثقافت کا حصہ بن چکی تھیں،جن سے سینکٹروں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا لیکن عوام کو اپنے بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کے حل کے لیے بھاگ دوڑ میں ان لائبریریوں کی اہمیت کا اندازہ ہی نہی ہو سکا

جس کی وجہ سے آج ہم ایک قیمتی اثاثے سے محروم ہو چکے ہیں ۔ جب مرد و خواتین اپنے فرصت کے لمحات بتانے کے لیئے جہاں دوسری سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے وہیں مطالعے کا ذوق بھی اپنے عروج پر ہوتا تھا۔

لوگوں کی اس ضرورت کو پوری کرنے کے لیے جا بہ جا یہ لائیبریریاں کھلی ہوئیں تھیں، جہاں سے لوگ تھوڑے سے کرائے پہ اپنی من پسند کتب اور رسائل پڑھنے کے لیے لے جاتے۔

یوں بعض مہنگی اور نایاب کتب بھی قارئین کی دسترس میں آجایا کرتیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں مطالعے کا چلن کم ہوا یہ کتب خانے بھی سمٹتے چلے گئے۔

ویسے تو شہر میں سرکاری لائیبریروں کے علاوہ جو لوگوں نے دکانوں میں لائبریریاں قائم کیں ہوئیں تھیں ان میں اندرون شہر جو بڑی اور جہاں سے دو یا تین روپے کرائے پر نایاب کتب آسانی سے مل جاتی تھیں ان میں چھوٹا بازار میں موجود راجہ لائبریری کے علاوہ چار پانچ اور لائبریریاں تھیں،

بلکہ سٹی تھانے سے ملحقہ تین چار دکانیں ایسی تھیں جہاں سے آپ کو ہر قسم کی استعمال شدہ جس کو لوگ ردی سمجھ کے بیچ دیتے تھے وہاں سے کم قیمت پر مل جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ محلہ ٹوئیانوالہ میں ماسٹر لائیبریری،

غلبی چوک پہ صادق لالا نے شمع لائیبریری بنائی ہوئی تھی جہاں پہ ہر قسم کی ہزاروں کتب موجود تھیں۔ اسی طرح ہر علاقے کی اپنی اپنی مشہور اور بڑی لائبریریاں تھیں۔

ان لائبریریوں کے علاوہ اس وقت بچوں کا بھی یہی شغل ہوتا تھا کہ جونہی چھٹیاں ہوئیں، اپنے گھر میں موجود کتابیں،

رسائل اور بچوں کی کہانیاں اٹھا کہ گھر کے باہر چھوٹی سی میز پر سجا کے بیٹھ گئےچوں کہ لوگوں میں پڑھنے کا شوق تھا، لہٰذا ان بچوں کی لائبریری بھی خوب چلتی۔ آپ اس بات سے اندازہ کریں کہ تب ہر گھر میں کتب بینی کا شوق و زوق تھا۔

لیکن ڈیرہ اسماعیل خان کی جو مشہور و معروف لائیبریری تھی وہ خلیل نشتر نے نظام گیٹ پہ پانچ رنگ لائبریری کے نام سے قائم کی ہوئی تھی۔ اگر کوئی کتاب کہیں سے بھی نہ ملتی تو پانچ رنگ لائبریری سے ضرور مل جاتی۔ مسجد نظام خان کے قریب ایک لمبی چوڑی سی دکان میں یہ لائبریری قائم تھی۔

جاسوسی ناول، بچوں کی کہانیاں، تاریخی ناول، مذہبی کتابیں، شعر و شاعری، عمران سیریز، ہر قسم کے رسائل اور ڈائجسٹ، ناول، افسانے ، فلمی کہانیاں ، فلسفے کی کتب،اور رضیہ بٹ، زبیدہ خاتون وغیرہ کے لکھے ہوئے خواتین کے ناول۔ غرض ہر عمر اور جنس کے لیے اس کی پسند کی پڑھنے کی کتاب موجود تھی۔

اس لائبریری میں ہزاروں کتب تھیں۔ ابن صفی، مظہر کلیم، منٹو، کرشن چندر، اشفاق احمد، بانو قدسیہ سمیت اردو ادب کا تقریباً ہر نامور ادیب اس پانچ رنگ لائیبریری میں موجود تھا، دیواروں پہ لگے شیلفوں میں بڑے سلیقے سے عنوانات کے مطابق کتب کو ترتیب وار رکھا ہوا تھا۔

پانچ رنگ لائبریری کے توسط سے ہی سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، غلام عباس، راجندر سنگھ بیدی بلونت سنگھ، کرتار سنگھ دُگل اور اشفاق احمد سے واقفیت ہوئی۔ کتابوں کی ایک ایسی دنیا دریافت ہوئی کہ ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔

اپنے انتخاب کے حوالے سے یہ ایک شاندار لائبریری تھی۔ تقریباً ہر قاری کے لیے کچھ نہ کچھ موجود ہے،
چاہے وہ مرد ہو، عورت ہو یا بچہ ہو، بڑی خوشدلی اور مستعدی سے خلیل نشتر قاری کو اسکی مطلوبہ کتاب فراہم کرتا ۔ نہ اب وہ لائبریریاں رہیں ،

نہ وہ کتب اور نہ کتب بینی کا رجحان کیونکہ آجکل کے دور میں ہم کتابوں کو کم اور موبائل کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو لیکن یہ بات واضع ہے کہ لائبریری کا کردار قوم کی ترقی کے لیے کسی درس گاہ سے کم نہیں ہوتا ،

یہ گلی محلوں کی لائبریریاں جو کبھی مطالعے کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی تھیں ان کا زوال پذیر ہونا کسی المیے سے کم نہیں ہے۔

افسوس کہ یہی حال ہمارے پڑھے لکھے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا بھی ہے. وہ کورسز کی کتابوں تک ہی محدود ہوتے ہیں. جب وہ اسکول کالج یا یونیورسٹیوں سے فارغ ہوتے ہیں

تو وہ جنرل کتابوں یا زندگی کی کتابوں کا مطالعہ ہی نہیں کرتے، اور نہ والدین اپنے بچوں میں کتب بینی کا شوق پیدا کرتے ہیں۔ والدین کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ مجسمہ صرف تراش کے رکھنا مہارت نہیں، بلکہ اس کی ’’نوک پلک‘‘ سنوارنا بھی کاریگری اور ضروری امر ہے۔

اس لیے والدین کو بچوں میں مطالعے کے لیے کوشش کرنی چاہیے، اس کے لیے ضروری ہے کہ خود بھی اس کا حصہ بنیں تاکہ بچوں کا کتاب سے ٹوٹا ناتا دوبارہ جُڑ سکے۔

About The Author