ناروے کے شہر کرسٹینڈ سینڈ جہاں گزشتہ روز قران کریم جلانے کی کوشش کی گئی تھی وہاں سے تعلق رکھنے والے ہمارے پاکستانی بھائی الیاس صاحب کی یہ تحریر پڑھیں آپکو اصل حقائق سے آگاہی ہوگی۔
ہفتہ 16 نومبر کو ناروے کے جنوبی شہر کرسٹینڈ سینڈ میں قران جلانے کی مذموم کوشش کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اس کے بعد جذباتی نعرے، جہادی پوسٹس اور جلا دو، مٹا دو، تعلقات ختم کردو، ایمبیسی کو جلا دو وغیرہ جیسی کچھ پوسٹس وٹس ایپس اور فیسبک کے گروپس میں دیکھی گئیں، راقم چونکہ اسی شہر کا رہائشی ہے، سوچا اس بارے میں فرسٹ ہینڈ انفارمیشن دوستوں کی نظر کر دوں۔ یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے اور صرف قران جلانے تک محدود نہیں، اس کے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ جذباتی ہوئے بغیر پوری تحریر پڑھئے گا تاکہ ٓاپ کو تصویر کے دونوں رخ نظر ٓاسکیں۔
اس واقعے سے پہلے تھوڑا سا بیک گراونڈ اور محرکات پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔
کرسٹینڈ سینڈ کی ٓابادی تقریبا اسی ہزار ہے جس میں دو ہزار کے لگ بھگ مسلمان ہیں۔ واحد جامع مسجد کےعلاوہ شہر کے اطراف میں کچھ مصلے بھی ہیں۔ مسلمانوں میں تیس سے زیادہ قومیتوں کے لوگ ٓاباد ہیں، جن میں زیادہ تعداد صومالیہ، شام، فلسطین و عراق کے مہاجرین کی ہے۔ مسلمان نوجوانوں کی قابل ذکر تعداد ہے اور ان میں سے بہت سے نوجوان یہاں کی معاشرت میں رنگے ہوئے ہیں۔ قانون کے مطابق ٓاپ کو مذہبی ٓازادی ہے۔ پورے ناروے میں تبلیغی جماعتیں سفر کرتی ہیں، ان کے اجتماعات ہوتے ہیں، اور یورپ کے گنے چنے ملکوں میں سے ناروے ایسا ملک ہے جو تبلیغی جماعتوں کو بلا حجت ویزے جاری کرتا ہے۔ہمارے شہر کی انتظامیہ، سیاست دانوں کی بڑی تعداد، سٹی کونسل میئر، پولیس اور باقی ادارے مسلمانوں کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں اور ان کی ضروریات کو قانون کے مطابق پورا کرتے ہیں۔ ہمیں کبھی ان سے کسی بھی معاملے میں شکایت نہیں ہوئی، بلکہ جب مسلمانوں کو بڑی جگہ پر مسجد کی ضرورت پڑی تو سٹی کونسل میں دائیں بازوں کی مخالفت کے باوجود ووٹنگ کروا کے ہمارے لئے نئی مسجد کی منظوری دلوائی گئی۔
اب ٓاتے ہیں اصل واقعے کے محرکات کی طرف، ایک ستاسی سالہ ملحد ٓارنے تھومیر (ٓArne Tumyr) نے یورپ کے باقی ملکوں کی دیکھا دیکھی کچھ سال پہلے اسلام کے خلاف ایک تنظیم بنائی، جس کا نام سیان (Stop Islmisation in norway۔ SIAN) ہے۔ متشدد خیالات کے یہ لوگ اسلام کے خلاف مختلف فورمز میں اسلام کے خلاف کافی ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں، اور مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کرتے ہیں جس میں اسلام کو جبر و طاقت کے زور پر پھیلایا ہوا مذہب اورمسلمانوں کوبطور دہشت گرد ٹارگٹ کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں کو معاشرے میں بہت زیادہ پذیرائی حاصل نہیں لہذا ان کے کسی مظاہرے میں قابل ذکر لوگ شامل نہیں ہوتے۔ میڈیا ایسے لوگوں کو چٹخارے لگا کر پیش کرتا ہے، اس وجہ سے ان کو کچھ حد تک کوریج مل جاتی ہے۔ ناروے میں مذہبی و اظہاررائے کی ٓازادی ہے، قانون تب حرکت میں ٓائے گا جب کوئی شخص نفرت، دہشت اور نسل پرستانہ تقریر کرے۔ اس کے علاوہ ٓازادی اظہار رائے کے نام پر جو مرضی کہے اس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔
پچھلے ہفتے ٓارنے تھومیر نے جب مظاہرے کا اعلان کیا تو ایک جرنلسٹ نے اس مظاہرے کا عنوان دریافت کرنے کی غرض سے اسکا انٹرویو کیا، جس میں ٓارنے تھومیر نے اعلان کیا کہ ہم قران کو جلائیں گے۔ اس بات نے شہر کے سکون میں ایک ارتعاش پیدا کردیا اور فوراً مسلم لیڈرز اور مسجد کمیٹی کے لوگ ایکٹو ہوگئے کہ ایسی کسی بھی انہونی کو روکا جا سکے۔ انہوں نے شہر کے میئر، پولیس اور لوکل گورنمنٹ سے منسلک لوگوں کے ساتھ میٹنگ کی، جس میں پوری سٹی کونسل نے یک زبان کہا کہ ہم اس مظاہرے کے سخت خلاف ہیں اور ایسی کسی بھی حرکت کی قطعی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حتی کہ مسلمان مخالف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی اعلان کیا کہ وہ قران کریم کو جلانے والے کسی بھی عمل کو سپورٹ نہیں کریں گے۔ اسی میٹینگ کے دوران پبلک پراسیکیوٹر نے قانونی نقطہ اٹھایا کہ قانون کے مطابق ہم مظاہرے کو نہیں روک سکتے جب تک وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرتے جو قابل گرفت ہو، لیکن چونکہ سیان کا یہ اعلان نفرت پھیلانے کے زمرے میں ٓاتا تھا تو پولیس کمشنر نے کچھ پیرامیٹرز طے کروائے جس میں سیان تنظیم کو یہ کہا گیا کہ مظاہرہ کرنا ٓاپ کا حق ہے لیکن ٓاپ قرآن کریم کو نہیں جلا سکتے اور ایسا کرنے پر قانون کی گرفت میں ہونگے۔
یہاں میں یہ عرض کردوں کہ سیان تنظیم کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو بطور دہشت گرد پیش کرے کہ یہ لوگ ان کے مغربی معاشرے میں رہنے کے قابل نہیں، ان کا رویہ پرتشدد اور مجموعی طرز عمل ہمارے معاشرے سے مطاقت نہیں رکھتا۔ان کایہ بھی مطالبہ رہا کہ مسلمانوں کو ناروے سے باہر نکالا جائے۔ لہذا یہ ایسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں، جن کا مقصد صرف اشتعال انگیزی ہے لیکن مسلمانوں کی طرف سے ہمیشہ حکمت اور بٖصیرت کے ساتھ اس کا جواب دیا گیا۔ یہاں کے پڑھے لکھے لوگ ڈائیلاگ اور کانفرنسز میں بہت جاتے ہیں اور شہر کے سب ٓاڈیٹوریمز میں کوئی نہ کوئی کانفرنس یا مکالمہ چل رہا ہوتا ہے۔ ٓارنے تھومیر نے پہلے پہل تو کوشش کی کہ اپنی نفرت والی باتوں کو ڈائیلاگ کی صورت میں لوگوں تک پہنچائے جس میں وہ نبی ﷺ پر بھی رکیک حملے کرتا تھا، اس کی باتوں کو الحمداللہ بڑے مدلل انداز میں رد کیا گیا،جس کو پبلک نے پسند کیا اور اس کا بہت مثبت اثر ہوا۔ اسی وجہ سے ہماری مسجد میں الحمداللہ ہر ہفتے دو ہفتے میں ایک نارویجین اسلام قبول کرتا ہے۔ ٓارنے تھومیر کی بے بنیاد باتوں اور نفرت پر مبنی تقریروں کی وجہ سے لوکل ادبی کونسل اور یہاں کے چرچ نے پابندی لگا دی کہ اس کو کسی تقریب میں نہیں بلانا تاکہ یہ اسلام سے متعلق اپنی نفرت کو پھیلانے کے لئے ہمارا فورم استعمال نہ کر سکے۔
لوکل انتظامیہ اور ادبی حلقوں سے کٹنے کے بعد اس تنظیم کے پاس صرف ایک ہی ٓاپشن رہ گیا کہ وہ پبلک مقامات پر مظاہرے کرے جس میں اسلام و محمد ﷺ کو ٹارگٹ کر سکیں۔ یہ اپنے مظاہرے میں باقاعدہ کیمرے اور میڈیا کے لوگوں کو ایڈجسٹ کرتے ہیں تاکہ اگر کوئی مشتعل شخص ان کو زدکوب کرے تو اس کی تصاویر و ویڈیو کو وائرل کروا کر لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ لوگ ہمارے معاشرےکی روایات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ ہمارے اکابر جن میں سب سے زیادہ متحرک جامع مسجد کمیٹی کے صدر جناب اکمل علی صاحب نے اس بات کو بہت پہلے سے بھانپ لیا تھا، لہذا وہ پہلے دن سے کہتے تھے کہ اس کی کسی بھی غیر قانونی حرکت پر قانون خود اس کو قابو کر لے گا۔ لہذا ہم مسلمان اس کی کسی اشتعال انگیزی پر برانگخیکتہ نہ ہوں اور اس کے کسی مقصد کو کامیاب نہ کریں۔
اس مظاہرے سے پہلے مسجد کی طرف سے اعلانات ہوئے کہ اگر ٓارنے تھومیر نے قرٓان کریم کی بے حرمتی کی تو اس کو ایسی کسی حرکت سے روکنے کے لئے پولیس موجود ہوگی لہذا انتظامیہ کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور اشتعال میں ٓاکر کوئی کاروائی نہ کی جائے۔ ہفتے کے دن سیان کے مظاہرے میں صرف آٹھ لوگ تھے، جبکہ چار سو سے زیادہ لوگ، جن میں نارویجنز کی قابل ذکر تعداد بھی شامل تھی، اس کے مظاہرے کے خلاف موجود تھی۔
پولیس نے رکاوٹیں لگا کر راستہ بند رکھا ہوا تھا تاکہ لڑائی کی صورت نہ بن سکے۔ ٓارنے تھومیر نے تقریر کے دوران قرآن کریم کی ایک کاپی باربی کیو گرل کے اوپر رکھی ہوئی تھی، جس کو پولیس نے فوراً اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اس دوران سیان تنظیم کے دوسرے سرکردہ رکن لارس تھورسن نے اپنی جیب سے قران کریم کے دوسرے نسخہ کو نکال کر ٓاگ لگانے کی کوشش کی، ٓاگ کو بجھانے کے لئے پولیس فورا دوڑی، انہی لمحوں میں عمر دھابہ جس کو فیسبک کی بڑی تعداد عمر الیاس لکھ رہی ہے، نے رکاوٹوں کو عبور کیا اور لارس تھورسن کو مارنے کو دوڑا، لارس کو فورا سول پولیس نے اس حرکت پر گرفتار کر لیا، اس دھکم پیل میں مسلمان نوجوانوں نے پولیس کو بھی دھکے اور ٹھڈے مارے، کہ وہ لارس تک پہنچ سکے۔ عمر اور دیگر کچھ اور ساتھیوں کی مداخلت نے ٓارنے تھومیر کو وہ فراہم کر دیا جو اس کو چائیے تھا، یعنی مسلمانوں کو اشتعال دلانا اور یہ ثابت کروانا کہ یہ لوگ یہاں کے قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں، ٓاج ان نوجوانوں کی ویڈیو اور تصاویر پورے ناروے میں وائرل ہیں، جو صرف ایک طرف کی ہیں:
” مسلمان رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے پولیس سے گتھم گتھا ہیں "
اگر ہمارے جذباتی نوجوان تھوڑا سا صبر اور حوصلے سے کام لیتے تو اس واقعے پر قانونی طریقے سے گرفت کی جاسکتی تھی، اگرچہ اس کی کوشش جاری ہے اور مسجد کمیٹی نے بہترین وکیل کا بندوبست کر لیا ہے جو لارس تھورسن کو قرار واقعی سزا دلوانے کی کوشش کرے گا۔ لیکن دوسری طرف ہمارا کیس کچھ کمزور ہو گیا ہے کہ حملہ ٓاور نوجوان پولیس کی حراست میں ہیں، چونکہ انہوں نے پولیس کو بھی زدوکوب کیا جو قابل گرفت حرکت ہے۔
ہمیں اس سارے واقعے کو ایک لارج پرسپیکٹو میں دیکھنا پڑے گا۔ یہاں کی مسجد انتظامیہ نے انتھک محنت اور کوشش کر کے سٹی لوکل کونسل اور انتطامی اداروں میں مسلمانوں کی ایک اچھی ساکھ بنائی ہے اور مجموعی تاثر کافی مثبت ہے۔ نارویجنز بھی ٓارنے تھومیر کی تقاریر کو ریجیکٹ کرتے ہیں اور اس کی یہاں کوئی سنائی نہیں ہے۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ نناوے فیصد ٓابادی اس مسئلے پر مسلمانوں کے ساتھ ہے، لیکن یہ سب ملیا میٹ ہو سکتا ہے اگر ہم یہاں کے قانون کو فولو نہ کریں، یہ یہاں کا قانون ہی ہے جس نے ہمیں بھرپور مذہبی ٓازادی دی ہوئی ہے اور ہم بلا خوف اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ اس اندہناک واقعے کے بعد پولیس، چرچ، انتظامیہ اور سیاست دان بھی اس مسئلہ پر مسلمانوں کے ساتھ متفق ہیں۔ لیکن ان سب کی سپورٹ صرف قانون کےدائرے میں رہ کر ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر ہم جذبات میں ٓاکر جلاؤ، گھیراؤ، سڑکوں پر ٹائر جلانے، قتل کی دھمکیاں اور دیگر جذباتی نعروں سے پرہیز کریں اور حکمت اور دانش کے ساتھ اس مسئلے کو حل کی طرف لے کر جائیں تو قانون اتنا طاقتور ہے اور معاشرہ اتنا باشعور ہے کہ ایسی باتیں یہاں زیادہ دیر پنپ نہیں سکتیں لیکن اگر قانون کو ہاتھ میں لے کر اس مسئلے کو خود حل کریں گے تو جو حاصل وصول ہے وہ بھی جائے گا۔
اس واقعے کے بعد مقامی چرچ کے پادری، دیگر مذاہب کے سرکردہ لوگ اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے یکجہتی کے اظہار کے لئے ٓاج جمعہ کی نماز کے دوران برستی بارش میں مسجد کے باہر حلقہ بنایا اور مسلمانوں کو اپنی حمایت کا یقین دلوایا۔
دوستوں سے درخواست ہے کہ اگر مناسب لگے تو شیئر کر دیجیے گا تاکہ واقعہ کے اصل احوال لوگوں تک پہنچ سکیں۔ جزاک اللہ۔
Muhammad Ilyas
Kristiansand, Norway
نوٹ :یہ تحریر سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم وٹس ایپ پر شئیر کی جارہی ہے اور بہت سے مستند گروپوں میں ذمہ دار لوگ شئیر کررہے ہیں ۔
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
حکایت :مولوی لطف علی۔۔۔||رفعت عباس
حکایت: رِگ ویدوں باہر۔۔۔||رفعت عباس