ابھی وہ آٹھویں کلاس میں ہی تھی کہ اسے ایک لڑکا پسند آگیا تھا۔ کلاس میں لڑکیاں داہنی طرف جبکہ لڑکے بائیں ہاتھ کی قطار میں بیٹھتے تھے۔ ہر ڈیسک پہ دو طالبات اور دو طلبا کی جگہ ہوتی تھی۔کلاس کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی تو اکثر ٹیچر کے نہ ہونے پہ کلاس کا صحیح فائدہ اٹھایا جاتا تھا۔ کلاس کم اور ڈسکو کلب زیادہ لگتا تھا، شور شرابہ ڈانس گانا سب چلاتے تھے۔ پورے اسکول میں سب سے شرارتی کلاس تھی۔
کلاس کے درمیان وہ ایک کونے میں بیٹھنے والی شرمیلی سی لڑکی تھی۔ سب اسے تنگ کرتے تھے مگر اس نے کبھی کسی کو پلٹ کر جواب نہیں دیا تھا۔ اور جس لڑکا کو پسند کرتی تھی وہ کلاس کا سب سے شرارتی لڑکا تھا۔ سب کے بچگانہ ذہن تھے۔ کسی کو نہ تو اس بات کا احساس تھا کہ عشق کیا ہوتا اور نہ اس بات سے واقف تھے کہ زندگی میں رشتے، عزت تقدس کس کھیت کی مولی کے نام ہیں۔
کلاس میں اکثر فی میل اسٹاف نے محبت نامے (لو لیٹرز) پکڑے تھے۔ بچے بہت تیز تھے نہ کسی کا نام ہوتا تھا اور نہ کوئی اشارہ چھوڑتے۔ ان کے اپنے کوڈ ورڈز تھے۔ یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا تھا کہ کس نے کس کو لکھا۔
موبائل لانا کلاس میں منع تھا اور اس پر کافی سختی تھی مگر پھر بھی یہ کلاس ایسے کارنامے کرتی کہ سب حیرت زدہ ہو جاتے تھے۔ اس لڑکی نے اس لڑکے کو کبھی نوٹس بھی نہیں کرنے دیا کہ اسے پسند کرتی ، وہ اپنی شرارتوں کی وجہ سے مجبور سب سے زیادہ اسے ہی چھیڑتا تھا۔ اس کلاس کے کچھ بچے اور بچیاں سگریٹ نوشی کی وجہ سے بھی پکڑے گئے تھے۔ بھاری جرمانے دیتے اور معاملہ ادھر اسکول میں ہی رفع دفع ہو جاتا تھا۔
وقت گزرتا گیا اور وہ کلاس نہم میں اسی اسکول میں ہی پہنچ گئے، ان میں سے کچھ آٹھویں کے بعد چھوڑ گئے تھے اور کچھ نئے بچے بھی آگئے۔ کلاس میں بورڈ کے ایگزامز کی وجہ سے سختی بڑھ گئی۔ دو میل ٹیچرز بھی لگا دیئے گئے۔ اس طرح کلاس پہ انتظامیہ کی کافی گرفت مضبوط ہوگئی
لڑکی لائق تھی اور لڑکا نے ٹائم شرارتوں میں گزارا تو تعلیم میں تھوڑا پیچھے تھا۔ وہ اپنے ٹیسٹ اور پیپرز اسائنمنٹس میں اس لڑکی سے مدد لیتا اور وہ خوشی سے یہ سب کر دیتی تھی۔ اس وجہ سے ایسا ہوا کہ ان دونوں کی موبائل پہ بات ہونا شروع ہو گئی تھی۔
لڑکی کسی بھی معاملہ پہ اسے انکار نہیں کر پاتی تھی ، وہ اکثراس سے اسکی تصاویر منگواتا جس پر ہر قسم کے کمنٹس بھی کرتا۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خاموش رہتی اور اسے منع نا کر پاتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس نے لڑکی کو جسمانی ملاپ برہنہ تصاویر کیلئے کہنا شروع کر دیا تھا۔ مگر وہ کسی صورت اس بات کیلئے آمادہ نہ تھی۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس کے دل میں کیا چل رہا وہ مجھے برائی کی طرف کیوں آمادہ کرنا چاہتا ہے؟ وہ مجھ سے جسم کا ہی رشتہ کیوں بنانا چاہتا ہے؟ ایک دن وہ اپنے کمرے میں بستر پر لیٹے یہ ساری باتیں سوچ رہی تھی۔
پھر خود سے ہمکلام ہوئی کہ میں تو اس سے پاکیزہ محبت کرتی ہوں اس رشتے کو ہمیشہ کیلئے جوڑنا چاہتی ہوں۔اتنے میں اس لڑکے کی فون کالز آتی ہیں اور پہلی بار وہ ریسیو نہیں کر رہی ہوتی۔ وہ خود سے ایک جنگ کر رہی ہوتی ہے کہ کیا اس محبت میں خود کو اس کے سپرد کر دوں یا پھر کنارہ کشی اختیار کروں
اگلے دن اسکول میں لڑکے نے کال نہ سننے پر شکایت کی۔ اس نے پہلی بار اپنی بات زبان پہ لائی کہ وہ اس سے دل سے محبت کرتی ہے مگر کسی قیمت پر جسمانی رشتے میں نہیں جانا چاہتی۔وہ خاموش ہو کر سنتا رہا اور اسے یقین دلایا کہ اب وہ ایسا کبھی نہیں کرے گا۔
اس اعتماد پر کئی ماہ گزر گئے نویں کلاس سے دسویں میں چلے گئے۔لڑکے نے بھی پیار اور اعتماد میں کمی نہیں دی۔ دسویں کلاس کے فائنل ایگزامز سے پہلے ان کی کلاس کا ٹرپ کھیوڑا گیا۔ وہاں ان دونوں نے اپنی کافی تصاویر لیں۔
اسکول سے فری ہونے کے بعد ان کا رابطہ صرف سوشل میڈیا پر ہی تھا۔ لڑکی اب اس لڑکا پر اندھا اعتماد کرتی تھی۔ ایک دن اسکول سے رول نمبر سلپ لینے کیلئے دونوں گئے، وہاں سے انہوں نے باہر جانے کا پلان بنایا جس کیلئے لڑکا نے اسے کسی بھی طرح راضی کر لیا۔
اب پارک یا ہوٹل میں ملنے سے لڑکی بہت ڈرتی تھی کہ کہیں کوئی دیکھ نا لے۔ اس لئے لڑکا اسے اپنے ایک دوست کے فلیٹ پر لے گیا۔وہ لڑکا بیچلر تھا اور ایک فلیٹ میں کرایہ پر رہتا تھا۔ یہ دونوں وہاں پہنچے۔
وہ ان کو روم میں چھوڑ کر باہر بیٹھ گیا۔ کہتے ہیں نا کہ شیطان کو دیر نہیں لگتی کسی کو بہلانے میں۔۔بس ایسا ہی ہوا ۔ وہ اس نام نہاد پیار کے بہکاوے میں آگئی اور وہ ہو گیا جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔
تھوڑی دیر بعد دوست نے روم کھٹکھٹایا اور ان کے پاس جا کے کہا کہ دیکھو دونوں ایک بات سنو۔ میں نے کمرے میں ایک خفیہ کیمرہ لگایا تھا جس سے تم دونوں کی پوری ملاقات اس میں ریکارڈ ہو گئی ہے۔ اس نے کیمرہ سے کارڈ نکال کے ان کو پوری فلم دیکھا دی۔
لڑکی اور وہ لڑکا دونوں رونے لگے مگر اس لڑکا نے ایک ہی شرط رکھی کہ وہ لڑکی کے ساتھ جسمانی تعلق بنائے۔ ورنہ وہ یہ ویڈیو ان کے گھر اور کلاس فیلوز کو بھیج دے گا۔ اس دھمکی سے اس کے اپنے پیار کے دعویٰ کرنے والے لڑکے نے بھی اسے مجبور کیا کہ وہ یہ کرے ورنہ دونوں مارے جائیں گے۔بس آگے اس کہانی کا اختتام میں خالی چھوڑتا ہوں۔اتنا ہوا کہ لڑکا اور لڑکی کبھی نا تو ایک دوسرے کو منہ دیکھانے کے رہے اور نا معاشرے کو۔
دل کی پاکیزگی سے پھوٹنے والے صاف ستھرے کم عمر عشق کو جسم کے حوس کے گناہ پر ریٹائرڈہونا پڑا اس کہانی میں اب یہاں پانچ پہلو سامنے آئے ایک اپنی عمر سے پہلے کا عشق ، دوسرا اعتبار ، تیسرا ڈر ، چوتھا نفسانی خواہشات کا خود پہ حاوی ہونا اور پانچواں کسی کے اعتماد کو اپنی خواہشات کی نظر کرنا۔
۔ اور اس عمر میں سب سے بہتر ہے کہ تعلیم اور اپنے مستقبل کی طرف توجہ دیں۔کیونکہ آپ کی کسی بھی وائرل ہونے والی ویڈیو کو معاشرہ لطف و اندوز ہو کے دیکھے گا۔ اپنے کردار کو چھوڑ کے دوسروں کی کردار کشی ویسے بھی اس معاشرے کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
تعارف:مظہر ملک گزشتہ ایک دہائی سے شعبہ صحافت اور تدریس سے منسلک ہیں۔اپنی صحافی ذمہ داریوں کے تحت سیاست اور معاشرتی مسائل پہ گہری نظر رکھتے ہیں
Twitter and Facebook: @mazharhoceyn
Moral-able story ,,,,
Teenagers have 2 learn ….
.Nyc Blog Sir ….