سندھ دریا کے داہنے کنارے سے ڈیراجات کا سلسلہ سلیمان رینج میں دامانی پٹی ھے جو اسماعیل خان سے اپر سندھ تک جاتا ھے۔
یہ قدیمی باشندے غیر معمولی موسم آب و ھوا میں جیتے ہیں جو بلوچ اور پختون کی مکس نسل ہیں۔یہ کنوئیں کھودنے والے۔چرواھے۔کسان اور چھاپہ مار بھی رھے ہیں۔
کچے پکے کنوئیں رسی اور بالٹی سے پانی نکالتے اناج جو اگاتے آئے ہیں۔
غیر یقینی موسم کا مقابلہ کرتے یہ قبائیل میں بٹے اپنے سردار سے خونی رشتہ نبھاتے کبھی جانوروں کو چوری سے اناج کو لوٹنے سے پانی اور چراگاہوں پہ پہرہ دیتے جان دیتے آئے ہیں۔
رودکوہی سے سندھ سے نہریں نکالتے تک یہ قبائلی دشمنیاں نبھاتے آئے ہیں اور سخاوت اور مہمان نوازی بھی قائم رکھی۔
وراثتی سرداری محدود آباد رقبہ اور سخت موسم انہیں ہجرت پہ مجبور کرتا رھا۔دریا کے قدیمی جٹ انہیں جانوروں کا زراعت میں استعمال سکھا گئے۔
فطرت نے انہیں چرواہا کسان خانہ بدوش بنایا مگر یہ جگہ پیدائش پہاڑ یا دامان یا کسی چراگاہ کی جھگی سے پیار نہیں بھولے اور نہ دریا پار کسی قبضے پہ گئے۔
یہ قیصرانی۔نتکانی۔بزدار۔لنڈ۔ کھوسہ۔لغاری۔گرچانی۔دریشک مزاری میرانی اپنا ایک جدا جغرافیہ رکھتے ہیں۔
یہ جغرافیہ کے افراد کسی نسل زبان رنگ کچر سے بھی زیادہ قریبی رشتہ رکھتے ہیں اور ایک دن دوبارہ اپنا انتقامی سماجی سیاسی یونٹ بناتے ہیں۔۔
ہم دامانی ابن آدم ہیں اجنبی یا وحشی یا نا معلوم بالکل بھی نہیں۔۔اس خطے کی گزرگاہیں ھوں یا درے کئی حملہ آوروں کا ستم سہہ چکی ہیں۔
دامانی مٹی اور اس کے شجر اس کے ڈھورڈنگر ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔موسم کی سختی ھو خشک سالی یا رود کوہیوں میں ڈوبتے اور ٹوٹتے بند سبھی فطرت کا کھیل سمجھا جاتا ھے۔اور اس کھیل میں یہاں کے واسی معصوم بچوں کی طرح حصہ لیتے ہیں۔
نہ شکوہ نہ شکائیت بس گلہ بانی کرتے چرواہے اپنے دوھڑے میں اظہاریہ بیان کیا جاتا ھے۔جس میں اپنی مٹی سے پیار اور ریاست کا پیار بھرا ھاتھوں کو تھام لینے کی تمنا ھوتی ھے۔
اب ریاست ان کی شناخت کا احترام کرے ان کی بنیادی سہولیات فراہم کرے تاکہ وہ اجنبی یا نا معلوم افراد نہ شمار ھوں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر