مولانا فضل الرحمن کا دھرنا اس حد تک تو ضرور کامیاب رہا کہ اس نے ریاستی مقتدرہ کے داخلی بحران اور اندرونی تضادات کی ایک حد تک نشاندہی کردی۔ مزید برآں ریاست کے داخلی استحکام اور بیرونی دباؤ کے باعث قومی خودمختاری کو لاحق خطرات بھی کسی حد تک کھل کر سامنے آگئے ہیں۔
کیا یہ خطرات ادارہ جاتی دنگل کے بڑی حد تک غیر دلچسپ مظاہروں سے دور ہو سکتے ہیں؟سردست اس کے امکانات کوئی زیادہ روشن نظر نہیں آرہے۔ مولانا کے دھرنے نے کسی حد تک ایک منظرنامہ واضح کیا ہے مگر جس سنگین مسئلہ کی طرف چوہدری شجاعت حسین نے نشاندہی کی ہے وہ مسئلہ اب بھی جوں کا توں برقرار ہے۔ چوہدری شجاعت حسین نے یہ خطرہ ظاہر کیا تھا کہ تین ماہ(زیادہ سے زیادہ چھ ماہ) بعد کوئی بھی شخص وزیر اعظم بننا قبول نہیں کرے گا۔ مجھے اور میری طرح بہت سے اور لوگوں کو اچھی طرح یادہے کہ کس طرح حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر زون بی اور گورنر مشرقی پاکستان لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان نے جنرل یحیحی خان کے آخری حل فوجی آپریشن سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اپنے سیاسی اور فوجی عہدوں سے استعفی دے دیا تھا۔
اس کے بعد اس سے بھی زیادہ خطرناک اور حسرت ناک صورتحال یہ سامنے آئی تھی کہ صاحبزادہ یعقوب خان کے بعد ان کی جگہ جب جنرل ٹکا خان کو گورنر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر زون بی بنا کر بھیجا گیا تو مشرقی پاکستان کے چیف جسٹس نے یہ کہہ کر ٹکا خان سے حلف لینے سے انکار کردیا تھا کہ وہ بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمن کی اپیل پر ہڑتال پر ہیں لہذا وہ حلف لینے گورنر ہاؤس نہیں آسکتے۔
کسی بڑے طوفان سے پہلے جو جھکڑ اور گردباد نظر آتے ہیں، انہیں ہم دیکھنا چاہیں یا نہ دیکھنا چاہیں مگر وہ گردباد اور جھکڑ بہر حال چلنا شروع ہوگئے ہیں اور مولانا فضل الرحمن نے ریاست اور مملکت کے وفادار شہری کے طور پر اس صورتحال سے کسی حد تک پردہ اُٹھادیا ہے اور چوہدری شجاعت حسین نے اس صورتحال کی بڑی حد تک وضاحت کردی ہے۔ اس صورتحال کا مقابلہ محض وزیر اعظم عمران خان کی رضاکارانہ یا غیر رضاکارانہ سبکدوشی سے نہیں کیا جا سکے گا۔
اس صورتحال کے مقابلے کیلئے وسیع البنیاد ہنگامی اور فوری مثبت اقدامات کرنا ہوں گے۔نواز شریف کی بیرونِ ملک جادوئی روانگی نے بھی صورتحال کی سنگینی کو کم نہیں کیا بلکہ ان کی روانگی نے حالات کی حقیقی سنگینی کو زیادہ واضح کیا ہے۔ نواز شریف کی روانگی نے تو طوفان سے پہلےکی صورتحال کو زیادہ بہترطور پر واضح کیا ہے۔
وطنِ عزیز کو درپیش موجودہ سنگین صورتحال کا مقابلہ ہم صدام حسین کے آخری وزیر اطلاعات سعیدالصحاف کی بے خبری پر مشتمل احمقانہ پریس کانفرنسوں اور مرحوم مشرقی پاکستان کے آخری گورنر اے ایم مالک کی تھکی ماندی ماندی بجھی بجھی سی نیازمندانہ سرگوشیوں سے نہیں کر سکتے۔ اب کسی اے کے بروہی یا شریف الدین پیرزادہ کے جادو منتر سے بھی کام نہیں چلے گا۔ اب واقعی کسی زندہ یا مردہ جاندار کی قربانی بھی ہمیں بحران سے نہیں نکال سکے گی۔ ہمیں قومی سطح پر جو خطرات درپیش ہیں ان خطرات کو نہ صرف سمجھنا ہوگا بلکہ ان کی سنگینی کا ادراک اور احساس بھی کرنا ہوگا۔
ملک کی موجودہ صورتحال فیصلہ سازی میں عوام کی عدم شرکت، انتخابی عمل میں انجینئرنگ اور منیجمنٹ کے ذریعے عوامی مینڈیٹ سے انحراف، عوام کے منتخب اداروں کی بے توقیری اور مخصوص گروہی مفادات کیلئے عوام کے حقیقی تاریخی مفادات کو نظرانداز کرنے باعث پیدا ہوئے۔ سرِدست ہمیں یہ فوری خطرہ درپیش ہے کہ ایف اے ٹی ایف ہمارے بارے میں کیا فیصلہ کرتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا مقصد یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ مختلف ممالک منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے فروغ میں دولت صرف کرنے (ٹیرر فنانسنگ) روکنے کیلئے کس قدر اور کتنی کامیابی سے اقدامات کررہے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کی ایک بنیادی اور لازمی سفارش یہ بھی تھی کہ مختلف ممالک ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کیلئے کس نوعیت کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ہم نے ایف اے ٹی ایف کی سفارشات اور شرائط پر عملدرآمد کرنےکیلئے بعض اقدامات انتہائی سنجیدگی سے کئے اور ان اقدامات کے ٹھوس نتائج بھی برآمد ہوئے۔ لیکن ہم ہمیشہ ڈُومور کے مطالبات کی زد میں بھی رہے۔ اب فروری 2020ء میں ہمیں ایف اے ٹی ایف کو اپنے اقدامات سے آگاہ کرنا ہے اور خدانخواستہ اپنے اقدامات کے غیر تسلی بخش ہونے کی صورت میں ہمیں سنگین نتائج کا سامنا بھی کرنا ہے۔
یہ وہ ابتدائی خطرہ ہے جس کا ادراک کرتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ تین ماہ کے بعد کوئی بھی شخص ملک کا وزیر اعظم بننا قبول نہیں کرے گا اور یہی وہ حالات ہیں جو وزیر اعظم عمران خان کی بہ رضا ورغبت یا بلا رضا سبکدوشی کی صورت میں بھی مثبت انداز میں حل ہوتے نظر نہیں آتے۔
عمران خان کو ایک سیٹ سے ایک سو سے زائد سیٹوں کی منزل تک پہنچانے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ وہ سیاسی حادثے کی راہ پر چلنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ وہ اپنی سیاسی نااہلی اور ناکامی کا ملبہ طاقتور اور کمزور افراد اور اداروں پر ڈال رہے ہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ وہ بھی تھوڑے سے فاصلے پر موجود بہت بڑا تاریخی ملبہ اپنے سر پر اُٹھانے کو تیار نہیں۔
اس پر طرہ یہ کہ وہ ایسی سنگین صورتحال میں بھی اپنی “ذرا سی” سیاسی شہادت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب وقت بہت کم رہ گیا ہے ملک چاروں طرف سے جن مسائل میں گھر چکا ہے، وہ مسائل ہم سے بلاتاخیر اور غیر مشروط طور پر عوام سے رجوع کرنے کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ کیا ہم مسائل کی سنگینی کا مکمل ادراک کررہے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم مسائل اور حالات کی سنگینی کا مکمل ادراک کر سکیں۔