ووٹ کو عزت اور پارلیامان کو اپنی کھوئی ھوئی طاقت واپس دلانے کا علم بغاوت اٹھانے والے ھمارے میاں صاحب پہلے جیل گئے، پھر جیل سے اسپتال، اسپتال سے گھر اور آخرکار حسب روایت (معذرت کے ساتھ اسے”حسب دستور” نھیں لکھ سکتا) گھر سے لندن۔
اسی طرح ایک بار پھر میاں نواز شریف کو مزاحمت کا راستا مھنگا پڑ گیا۔ اس بار میاں صاحب و مریم نواز کی گرجتی آواز اور واضح موقف دیکھ کر بھت مزاحمت پسند اس امید سے تھے کے یہ خاندان اب پیچھے نھیں ہٹے گا۔ ووٹ، ووٹر اور پارلیامان کو عزت دلاکر رہے گا مگر ایسا نا ہوا۔
جو امید سے تھے ان کی غم کی شام مزید لمبی ہو گئی۔ امپائرز اور سلیکٹرس کو کھری سنانے والی مریم اب طئہ شدہ وقت دادی ماں کے پھلو میں بیٹھ کر گذارے گی، دعائیں سمیٹے گی، خادم اعلیٰ بڑے بھائی کی لندن و آمریکا کے اسپتالوں میں خدمت کریں گے اور ملک میں جو باقی نواز لیگ ہے وہ ووٹ اور ھم ووٹروں کی عزت پر پہرا دیا کرے گی۔ مرنے مارنے کی مزاحمتی باتیں کرنے والے میاں صاحب اور ان کی اکلوتی بیٹی مریم نواز نے جو نواز لیگ کا نیا بیانیہ متعارف کرایا تھا، وہ بس ایک تعارفی تقریب ثابت ہوا۔
نواز کی لیگ نے جب کبھی اسٹیبلشمینٹ مخالف بیانیے کا راستہ لیا ہے تو اسے اپنا اصل یاد دلایا گیا ہے۔ اس بار پھلے نواز شریف اور بعد میں مریم نواز کے موقف نے کچھ دن دل بھلانے کا سامان ضرور میسر کیا مگر یہاں سیاسی بھار آنے کے دن ابھی اتنے ہی دور ہیں جتنی دھلی۔ جن آنکھوں میں اس سال بھار دیکھنے کے خواب ہیں، ان آنکھوں سے بھی معذرت پنڈی کے پنڈتوں نے اس سال کو بھی سیاسی بھار کے لیئے اچھا ہونے نہیں دیا۔
سیاسی قیادت سے محبت کرنے کے لیئے ترستے لوگوں نے نواز شریف اور مریم کے موقف سے محبت کی مگر وہ خوشفھمی عارضی ثابت ہوئی۔ دائمیت وطن عزیز میں صرف ان کو حاصل ہے جو پھلے اپنی تصویریں ٹرکوں کے پیچھے بنوا کر خوش ہوا کرتے تھے اور اب جھوٹے ٹوئیٹر اور فیس بک اکائونٹس کی مدد سے گالی گلوچ کی جنگیں جیت کر جشن مناتے ہیں۔ اس ملک میں نا کوئی ان کا ثانی ہے اور نا ہی ان کی دائمیت کا، کیونکہ وہ تو اپنے تئیے "خدائی فوج” ہیں۔
یہاں تو دل کا حال یہ ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان بھی کہتا ہے کے "یہ بازو” میرے آزمائے ہوے ہیں تو اچھا لگتا ہے۔ اس جگہ اگر میاں صاحب اور مریم سرفروشی کی باتیں کریں، سرفروشی کی تمنا کا اظھار کریں تو ھمارے سانسوں میں آنے والی بھار کی خوشبو مہکنے لگتی ہے۔ "بازوئے قاتل” کی طاقت کا حقیقی اندازہ اگر اس ملک میں کسی کو ہے تو وہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو ہے۔ سیاسی قیادت میں سے خون کا رنگ بھی صرف ان ہی دو جماعتوں کی قیادت کو معلوم ہے۔ اسفند یار ولی اور بلاول بھٹو تھوڑے فرق سے باآسانی بتا سکتے ہیں کے ووٹ، ووٹر اور پارلیامان کی عزت بچانے والی جنگ میں کیا کیا قربان کرنا پڑتا ہے۔
جو عباس ناصر جیسے معززین آس لگائے بیٹھے تھے اس بار نواز شریف پنجاب کا بھٹو بنے گا، ان کے غم میں فی الحال برابر کے شریک ہیں۔ بھٹو کیسے بنتا ہے اور بھٹو کیسا ہوتا ہے، اس کی ایک چھوٹی سی جھلک ملاحظہ فرمائیں۔
"معاف کیجئے گا جناب اعلیٰ! میں ایسا شخص نہیں جس کی جڑیں نہ ہوں۔۔۔۔ جناب اعلیٰ! مری میں مصطفیٰ کھر نے مجھے کہا میں ملک چھوڑ دوں، انھوں نے کہا کے یہ لوگ آپ کے خون کے پیاسے ہیں۔ میں نے کہا، نہیں اگر تم جانا چاہتے ہو تو چلے جائو۔ میں اپنی جڑیں چھوڑ کر نھیں جائوں گا۔ 13 ستمبر کو نواب صادق حسین قریشی کی کوٹھی پر پریس کانفرنس کے بعد ایک غیر ملکی صحافی مجھ ایک طرف لے گیا اور اس نے کہا۔ بھٹو صاحب! میں نہیں بتا سکتا کے آپ کے خلاف کیا ہو رہا ہے۔ بھتر یہ ہے آپ ملک چھوڑ دیں۔ میں آپ کا مداح ہوں۔ میں نے اس صحافی کا شکریہ ادا کیا اور کہا میں اس سے زیادہ نہیں سننا چاہتا۔
بس اتنا ہی کہوں گا کے میں اسے بھول نہیں سکتا۔ تو اس نے کہا، مھربانی کر کے لاڑکانہ نہ جائیں، کہیں اور چلے جائیں۔ آپ نہیں جانتے کے کیا ہو رہا ہے۔ میں نے کہا میں لاڑکانہ ضرور جائوں گا۔ اس دھرتی پر جہاں میں نے جنم لیا۔ اس دھرتی پر جس سے میرا تعلق ہے اور جہاں مجھے واپس جانا ہے۔ میں باہر نہیں جائوں گا۔ میں کسی سے رحم کی بھیک نہیں مانگوں گا اور جیسا کے میں نے پھلے عرض کیا ہے میں رحم نہیں چاہتا میں انصاف چاہتا ہوں۔ میں محض زندہ رہنے کے لیے زندگی کی درخواست نہیں کروں گا۔” 18 دسمبر 1978ع کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھٹو نے اپنے مقدمے کے دفاع میں یہ کہا تھا۔
جو بھول جاتے ہیں بھٹو کیسا تھا ان کو یاد دلانے کے لیئے ہر حکومتی دور میں کچھ ایسا ہو جاتا ہے اور ہمیں بھٹو کی یاد دلاتا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ