جناب نواز شریف علاج کے لئے براستہ قطر لندن روانہ ہوگئے۔ (پچھلی شب سے لندن میں اپنے صاحبزادے کے فلیٹ میں قیام پذیر ہیں)
عدالت نے انہیں چار ہفتوں کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی عدالت کے ہی حکم پر ان کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا۔
ای سی ایل سے نام نکالنے کے لئے قبل ازیں وزارت داخلہ کو میاں شہباز شریف کی طرف سے دی گئی درخواست کے جواب میں جو کچھ ہوا وہ ریکارڈ پر ہے۔
نواز شریف کی لندن روانگی پر کچھ چھاتہ برداروں کے ہاں سوگ کا سماں ہے۔
کھمبیوں کی طرح غریب نواز بھی اگ آئے ہیں۔
ان غریب نوازوں نے کبھی کسی غریب کو اپنے حصے کی دو روٹیوں میں سے ایک تو کیا نصف بھی نہیں دی مگر غریب پروری کا منجن زوروشور سے بیچ رہے ہیں۔
انصافی ناخوش ہیں "بھاگ گیا” اب نہیں آئے گا سمیت بہت ساری باتیں اچھالی جا رہی ہیں۔
ان انصافیوں کے وزیراعظم کا بینہ کے اجلاس میں صاف صاف کہہ چکے
” نواز شریف بیمار ہیں میں نے تصدیق کرلی”۔
ان کی تصدیق کے بہت سارے ذریعوں میں چودھری پرویز الٰہی بھی شامل تھے۔
ڈیل و ڈھیل جیسی باتیں کرنے پر فردوس عاشق اعوان اور غلام سرور خان توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کہتے ہیں انہوں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رحم کھا کر نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی۔
چند تجزیہ نگار جناب نواز شریف کو ملنے والے ریلیف کو مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ سے جوڑ رہے ہیں۔
ان کا موقف ہے کہ جونہی نواز شریف لندن پہنچے مولانا فضل الرحمن نے اپنی تحریک کے ”پلان بی” کو بھی سمیٹ لیا۔
پیپلز پارٹی کے جیالے بھی طعنے اچھال رہے ہیں۔
جیالوں کی خدمت میں عرض ہے کہ قیادت سے کہیں جیب ہلکی کرے۔ نجی چینلوں کے پرائم ٹائم میں ائیر ٹائم خریدے اور نتائج حاصل کرے کس نے روکا ہے۔
صحافت کے ساتھ اب سیاست کمر شل بنیادوں پر ہوتی ہے۔ ” دو کا دس ریٹ ہے”۔ کڑھنے اور سول سپر میسی پر تبرا کرنے کی ضرورت نہیں۔
نواز شریف بیمار ہیں’ ان کی صحت اور وطن واپسی کے لئے دعا کیجئے اگر کسی کو بیماری حکمت عملی کا حصہ لگتی ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ اس حکمت عملی پر پچھلے تین ماہ کے دوران 53کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں تو یقینا اس کے پاس بھی شواہد ہوں گے
گیدڑ سنگھیوں اور کبوتروں کے زمانے گئے ۔
جس ملک میں خبر اشتہار کی صورت میں شائع کروانے کی سہولت موجود ہو یا یوں کہہ لیں اشتہار خبر کی صورت میں شائع کروانے کی وہاں ائیر ٹائم خریدنے میں کیا رکاوٹ ہے۔
میڈیا ہاوس ہیں کس لئے’ نقصان کرنے کیلئے انوسمنٹ نہیں ہوتی نا صحافت اب کوئی دائیں بائیں بازو کا نظریہ ہے۔
دو باتیں اہمیت رکھتی ہیں
” اصل مالکان کی مرضی سے سب چور اور ایک سادھو کا چورن فروخت کرنا”
اور ”حکمت عملی کا حصہ بن کر کمرشل بنیادوں پر پروگرام نشر کرنا”۔
مالکان کے ساتھ جناب شہباز شریف رابطے میں تھے وہ اپنے بھائی کو علاج کے لئے بیرون لے جانے کے آرزو مند تھے سعادت مند چھوٹے بھائی پر یہی فرض تھا۔
مالکان پریشان تھے کہ اگر کچھ ہوگیا تو بھوت گلے پڑ جائے گا۔
ایک پیج کی باتیں محض ڈھکوسلہ تھیں حکومت اور مالکان اپنی اپنی پچ پر کھیل رہے تھے۔
رابطہ کاروں کے سرخیل شہباز شریف تھے۔
حکمت عملی ایک میڈیا ہاوس کے مالک نے وضع کی کمرشل صحافت کیسے جھنڈے گاڑتی ہے یہ سب نے دیکھ لیا۔
مجھے تو اس حکمت عملی میں کوئی برائی دکھائی نہیں دیتی۔
اب دیوار پر لکھی اس حقیقت سے کیسے کوئی آنکھیں چرائے گا کہ جناب عمران خان کے بس میں صرف تقاریر کرنا ہی ہے اور وہ مزید کچھ عرصہ تقریروں سے جی بہلائیں گے۔
ان کے متوالے ٹائیگرز تقریروں کے نکات اور بڑھکوں پر بھنگڑے ڈالیں گے۔
فواد چودھری نے کل دعویٰ کیا نواز شریف بھاگ کر جہاز کی سیڑھیاں چڑھے۔ ارے بھلے مانس کس نے تجھے گمراہ کیا؟۔
نواز شریف کو لفٹر کے ذریعے جہاز کے دروازے تک پہنچایاگیا۔ ان کے بلیک سوٹ اور انگوڑھا دکھانے پر تبصرے ہوئے۔
صاحب! کیا دھوتی بنیان پہن کر گھر سے روانہ ہوتے وہ اور کچھا پہن کر جہاز میں بیٹھتے۔
فقیر راحموں کے ایک دوست نے سوال کیا’ شاہ جی نواز شریف جہاز میں بلیک پینٹ کوٹ میں سوار ہوئے مگر نشست پر شلوار قمیض اور ویسکوٹ میں تشریف فرما تھے۔
عرض کیا کہ وہ 9عدد سوٹ کیسوں میں نہاری سرے پائے ہریسہ اور پالک گوشت نہیں۔ استعمال کرنے والی اشیاء اور کپڑے ہی لے کر گئے ہیں۔
میاں صاحب ازلی خوش لباس اور خرچیلے ہیں آپ پریشان نہ ہوں دونوں تصویروں کا د رمیانی وقفہ15منٹ کاہے۔ بلیک پینٹ کوٹ میں وہ گھر سے رخصت ہوئے تو پیغام تھا
” سڑنے والو سڑو’ روک سکو تو روک لو”
ایک ستم ظریف نے کہا جہاز میں ان کی نشست کے سامنے میز پر’ انگور رکھے ہوئے تھے۔
ارے تو کیا باقر خانیاں رکھی ہوتیں؟۔
مریض پھل زیادہ رغبت سے کھاتا ہے۔ روٹی بوجھل کردیتی ہے طبیعت کو۔
وفاقی کابینہ نے کل کہا ہے کہ نواز شریف کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو بعد میں چیلنج کرسکتے ہیں بالکل کیجئے یہ آپ کا حق ہے لیکن یہ بتا دئیجے کہ جب اس معاملے کی اگلی سماعت ہوگی تب یہی وفاقی کابینہ ہوگی؟۔
ہمارے محب مکرم مولانا فضل الرحمن نے ایک بار پھر کہا ہے کہ
” اسلام آباد نہ ایسے گئے اور نہ ایسے ہی واپس آئے ہیں”۔
بالکل بجا فرمایا مشن زیرو زیرو سیون مکمل ہوا۔ اب آگے دیکھتے ہیں کہ کیا ہوگا۔
آزادی مارچ دھرنے سے سیاسی زلزلہ برآمد کرنے والے اب سورة العصر کی تلاوت کیا کریں۔
نواز شریف چلے گئے’ وہ واپس ضرور آئیں گے۔ ان کی زندگی اور سیاسی وارث مریم نواز اور والدہ محترمہ یہیں ہیں۔
معاف کیجئے گا کوئی سودا نہیں ہوااور نہ مریم نواز زر ضمانت کے طور پر ملک میں ہیں۔
2000ء میں تو حمزہ شہباز شریف کو زر ضمانت کے طور پر اس لئے مشرف حکومت نے رکھا تھا کہ بعض معاملات طے کرنے کے لئے شریف خاندان کے ایک قانونی وارث کی ملک میں موجودگی ضروری تھی۔
اب ایسا نہیں ہے’
کسی نے جان چھڑائی ہے کس نے؟
اس سوال کاجواب عام و خاص سب کو معلوم ہے تو میں بھائی غفور کو ناراض کیوں کروں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ