پچھلے 72 سالوں کے دوران دنیا کے بہت سے ممالک وجود میں آے اور ان میں بہت خوشگوار تبدیلیاں ہوئیں مگر پاکستان میں ہمارا مقدر ہر قافلے کے ساتھ بند گلی میں پہنچ جاتا ہے۔ آج میں برصغیر کی تاریخ سے متعلق کچھ مواد دیکھ رہا تھا جس سے پتہ چلا کی کچھ ہمارے جین میں بھی تبدیلی کے جراثیم کمزور ہیں۔ فرانسس برنیئر نے ہندوستان کے متعلق 1671 میں ایک تاریخی کتاب فرانسیسی زبان میں لکھی۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک فرانسیسی ڈاکٹر تھا جو 1658ء میں ہندوستان آیااور 1670ء تک بارہ سال ہندوستان میں رہا۔
یہ شاہجہاں کے دور کے آخری دن تھے،
یہ مختلف امراء سے ہوتا ہوا شاہی خاندان تک پہنچ گیا، اسے مغل دربار، شاہی خاندان، حرم سرا اور مغل شہزادوں اور شہزادیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔فرانسس برنیئر نے ہندوستان کے بارے میں ڈھائی تین سو سال پہلے جو کچھ لکھا ہمارا حال آج بھی وہی ہے۔وہ لکھتا ہے ۔ ہندوستان میں درمیانہ طبقہ (مڈل کلاس) سرے سے موجود نہیں، ملک میں امراء ہیں
یا پھر انتہائی غریب لوگ ۔امراء محلوں میں رہتے ہیں انکے گھروں میں باغ بھی ہیں، فوارے بھی، سواریاں بھی
اور درجن درجن نوکر چاکر بھی جبکہ غریب جھونپڑیوں میں رہتے ہیں
اور انکے پاس ایک وقت کا کھانا تک نہیں ہوتا،وہ کہتا ہے،
ہندوستان میں خوشامد کا دور دورہ ہے،
بادشاہ سلامت، وزراء، گورنرز اور سرکاری اہلکار دو دو گھنٹے خوشامد کراتے ہیں، دربار میں روزانہ سلام کا سلسلہ چلتا ہےاور گھنٹوں جاری رہتا ہے۔
لوگوں کو خوشامد کی اسقدر عادت پڑ چکی ہے کہ یہ میرے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو مجھے سقراط دوراں،
بقراط اور ارسطو زمان اور آج کا بو علی سینا قرار دیتے ہیں اور اسکے بعد نبض کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں،
بادشاہ سلامت دربار میں جب بھی منہ کھولتے ہیں تو درباری کرامت کرامت کا ورد شروع کر دیتے ہیں،لوگ جیبوں میں عرضیاں لے کر گھومتے ہیں اور انھیں جہاں کوئی صاحب حیثیت شخص دکھائی دیتا ہے یہ اپنی عرضی اسکے سامنے رکھ دیتے ہیں اور وہ جبتک اس عرضی پر حکم جاری نہیں کرتا سائل وہاں سے ٹلنے کا نام نہیں لیتا.
بازار بے ترتیب اور گندے ہیں
آپکو ایک دکان سے پشمینہ، کمخواب، ریشم اور زری کا کپڑا ملے گا اور ساتھ کی دکان پر تیل، گھی، آٹا اور شکر بک رہی ہو گی.آپکو کتابوں اور جوتوں کی دکانیں بھی ساتھ ساتھ ملیں گی،
ہر دکان کا اپنا نرخ ہوتا ہے
۔ شہروں میں حلوائیوں کی دکانوں کی بہتات ہے مگر آپکو دکانوں پر گندگی، مکھیاں، مچھر، بلیاں اور کتے دکھائی دیتے ہیں، آپکو ہندوستان بھر میں اچھا گوشت نہیں ملتا،قصائی بیمار اور قریب المرگ جانور ذبح کر دیتے ہیں۔
پھل بہت مہنگے ہیں، ہندوستان میں خربوزہ بہت پیدا ہوتا ہے لیکن دس خربوزوں میں سے ایک میٹھا نکلتا ہے.
ملک میں شراب پر پابندی ہے لیکن چھپ کر سب پیتے ہیں، شراب شیراز سے اسمگل ہو کر آتی ہے اور شہروں میں عام ملتی ہے تاہم حکومت نے عیسائیوں کو شراب پینے کی اجازت دے رکھی ہے
مگر یہ اکثر اوقات اپنی شراب مسلمانوں کو بیچ دیتے ہیں،
ملک بھر میں جوتشیوں کی بھرمار ہے.
یہ دریاں بچھا کر راستوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ انکے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں، ملک میں پینے کا صاف پانی نہیں ملتاچنانچہ امراء اونٹ پر پانی لاد کر سفر کے لیے نکلتے ہیں، ہندوستان کی مٹی ذرخیز ہے لیکن زراعت کے طریقے قدیم اور فرسودہ ہیں چنانچہ کسان پوری پیداوار حاصل نہیں کر پاتے‘
ہندوستان کی زیادہ تر زمینیں بنجر پڑی ہیں،لوگ نہروں اور نالیوں کی مرمت نہیں کرتے‘
چھوٹے کسان یہ سمجھتے ہیں اس سے جاگیرداروں کو فائدہ ہو گااور جاگیردار سوچتے ہیں بھل صفائی پر پیسے ہمارے لگیں گےمگر فائدہ چھوٹے کسان اٹھائیں گےلہٰذا یوں پانی ضایع ہو جاتا ہے‘ لاہور کے مضافات میں ہر سال سیلاب آتا ہے
اور سیکڑوں لوگوں کی ہزاروں املاک بہا لے جاتا ہے لیکن لوگ سیلابوں کی روک تھام کا کوئی بندوبست نہیں کرتے
چنانچہ اگلے سال دوبارہ تباہی دیکھتے ہیں۔فرانسیس برنیئر نے ہندوستان کے لوگوں کے بارے میں لکھا
یہ کاریگر ہیں لیکن کاریگری کو صنعت کا درجہ نہیں دے پاتےلہٰذا فن کار ہونے کے باوجود بھوکے مرتے ہیں،
یہ فنکاری کو کارخانے کی شکل دے لیں
تو خوشحال ہو جائیں
اور دوسرے لوگوں کی مالی ضروریات بھی پوری ہو جائیں، ہندوستان کے لوگ روپے کو کاروبار میں نہیں لگاتے،
یہ رقم چھپا کر رکھتے ہیں، عوام زیورات کے خبط میں مبتلا ہیں،
لوگ بھوکے مر جائیں گے
لیکن اپنی عورتوں کو زیورات ضرور پہنائیں گے، ملک کا نصاب تعلیم انتہائی ناقص ہے،یہ بچوں کو صرف زبان سکھاتا ہےانکی اہلیت میں اضافہ نہیں کرتا یہ لوگ فاقوں کو بیماریوں کا علاج سمجھتے ہیں چنانچہ بخار میں فاقے شروع کر دیتے ہیں۔ ملک میں رشوت عام ہے،
آپکو دستاویزات پر سرکاری مہر لگوانے کے لیے حکام کو رشوت دینا پڑتی ہے،
صوبے داروں کے پاس وسیع اختیارات ہیں،یہ بیک وقت صوبے دار بھی ہوتے ہیں،
خزانچی بھی،
وکیل بھی،
جج بھی،
پارلیمنٹ بھی اور جیلر بھی. سرکاری اہلکار دونوں ہاتھوں سے دولت لٹاتے ہیں،
سرکاری عہدیدار پروٹوکول کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہیں،
یہ ہاتھیوں پر سوار ہو کر باہر آتے ہیں،
انکے آگے سپاہی چلتے ہیں،
ان سے آگے ماشکی راستے میں چھڑکاؤ کرتے ہیں،
ملازموں کا پورا دستہ مورجھل اٹھا کر رئیس اعظم کو ہوا دیتا ہے
اور ایک دو ملازم اگل دان اٹھا کر صاحب کے ساتھ چلتے ہیں.یہ لوگ گھر بہت فضول بناتے ہیں۔
انکے گھر گرمیوں میں گرمی اور حبس سے دوزخ بن جاتے ہیں اور سردیوں میں سردی سے برف کے غار، بادشاہ اور امراء سیر کے لیے نکلتے ہیں تو چھ چھ ہزار مزدور انکا سامان اٹھاتے ہیں، ہندوستان کی اشرافیہ طوائفوں کی بہت دلدادہ ہے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں طوائفوں کے کوٹھے ہیں
اور امراء اپنی دولت کا بڑا حصہ ان پر نچھاور کر دیتے ہیں، طوائفیں شاہی خاندان کی تقریبات میں بھی بلوائی جاتی ہیں
اور دربار سے وابستہ تمام لوگ انکا رقص دیکھتے ہیں ہندوستان میں گرد، غبار، گندگی، بو اور بے ترتیبی انتہا کو چھو رہی ہےاور جرائم عام ہیں،
مجرم اول تو پکڑے نہیں جاتے اور
اگر پکڑ لیے جائیں تو یہ سفارش یا رشوت کے ذریعے چھوٹ جاتے ہیں۔
یہ فرانسس برنیئر کی 1671ء میں ہمارے متعلق لکھی گئی باتیں ہیں۔ اب آپ اپنے اردگرد کا جائیزہ لیں کیا یہ خرابیاں درست ہوئی ہیں یا بڑھ گئی ہیں۔ تو پھر تبدیلی کیسی؟
پھل بہت مہنگے ہیں، ہندوستان میں خربوزہ بہت پیدا ہوتا ہے لیکن دس خربوزوں میں سے ایک میٹھا نکلتا ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر