ایک عرصہ سے ارادہ تھا کہ ‘بُزدار قبائل” سے متعلق کچھ لکھوں۔ یہاں میری اس مختصر سی تحریر سے ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں عددی اکثریت رکھنے والے اِن قبائل کی تذلیل کر رہا ہوں۔ ہرگز نہیں۔۔۔!
ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ میں رہائش پذیر "بزدار قبائل” نے تعلیم حاصل کر کے شعور کی منازل طے کی۔ اس طرح تحصیل تونسہ شریف سے متعلقہ "بزدار قبائل” کے سیاست دان "عثمان بزدار” نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ "پنجاب” کی نہایت ہی اعلٰی وزارت پر رسائی حاصل کر لی۔
وزارتِ اعلٰی سنبھالنے سے لے کر اب تک عثمان بزدار پاکستان کے قومی اور سوشل میڈیا پر زیرِبحث ہیں جو یقیناً اُن کی سیاسی پختگی اور سیاست کاری کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔ وزارتِ اعلٰی تک پہنچنا تنہا عثمان بزدار کا کام نہیں تھا۔ اس منصبِ جلیلہ تک رسائی میں تحصیل تونسہ اور اُن کے حلقہ کے ووٹرز اور "بزدار قبائل” کے غیور بُزداروں کا بھی خاصا حصہ ہے۔
اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ تحصیل تونسہ کے "بزدار قبائل” چوٹی زیریں اور نواحی موضعات نواں شمالی، نواں جنوبی، درخواست جمال خان، چک کانمہ، چک جلوہڑ، چک ٹالپور، چک دوداڑہ اور چک بکھر میں کم و بیش تیس ہزار (30000) افرادی قوت کے حامل "بزدار قبائل” سے ہزار گُنّا زیادہ باشعور، غیور، مُنظّم اور سیاسی شعور سے مالا مال۔ ادب و ثقافت اور ریسرچ میں اپنی مثال آپ ہیں۔
ضلع راجن پور کا قصبہ "مِہرے والہ” اپنی ایک پہچان رکھتا ہے۔ "مہرے والہ” کی پہچان "بُزدار قبائل” کے نہایت ہی عظیم اور انقلابی دانشور اور سرائیکی قوم پرست رہنماء عاشق بزدار کی شعر و ادب اور سیاسی میدان میں میں محنتِ شاقّہ کے باعث ہے۔ عاشق بزدار کا شعری مجموعہ "اساں قیدی تخت لاہور دے” قومی سطح پر اپنی حیثیت منوا چکا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے "بزدار قبائل” کا عظیم سپوت عاشق بزدار ضلع راجن پور کی پہچان بن چکا ہے۔ یہاں بھی "بُزداد قبائل” نے اپنی حیثیت برقرار رکھی بلکہ اِس میں قابلِ ذکر حد تک اضافہ ہی ہوا۔
صوبہ سندھ اور اور بلوچستان میں بھی "بزدار قبائل” نے اپنی سیاسی اور سماجی حیثیت کسی طور بھی کم نہ ہونے دی مگر چوٹی زیریں کے متذکرہ مواضعات میں مکین "بزدار قبائل” انتہائی نیچ، کم تر سماجی اور سیاسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اس میں محض ایک ہی بات ہے وہ یہ کہ ہمیں سیاسی سطح پر بالغ اور عاقل ہونے ہی نہیں دیا گیا، سیاسی شعور سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ سیاسی سطح پر انتہائی پسماندہ ہیں کیونکہ یہاں پر "بزدار قبائل” کی قیادت دقیانوس، ان پڑھ، کرپٹ، انتقامی، نااہل، مفاد پرست، بےوقوف، سیاسی و سماجی شعور سے عاری، تعلیم دشمن عناصر اور تھانہ کچہری کی سیاست کرنے والے وڈیروں کے ہاتھوں میں ہے۔
مفاد پرست مقامی سیاسی ٹولے نے کبھی کسی تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوان کو آگے آنے ہی نہیں دیا، اُلٹا اس حوالے سے حوصلہ شکنی کی۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی سطح پر بھی ہم بہت پیچھے ہیں۔ یہاں عددی اکثریت کے حامل "بُزدار قبائل” کمزور دفاعی پوزیشن رکھتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی برادریوں کے مسلح جتھے جب چاہیں "بزدار قبائل” کے نوجوانوں کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں اور عورتوں کو اغواء کر لیتے ہیں اور پھر غیر معیاری قسم کے "بزدار وڈیرے” ان تنازعات پر اپنی سیاست چمکاتے اور صلح کے دوران "لُنگی” کے نام پر بھتے وصول کرتے ہیں۔ قبل ازیں میں ان مسائل کا ذکر اپنے ایک کالم میں بھی کر چکا ہوں جو قومی اخبارات اور آن لائن جرائد میں شائع ہو چکا ہے۔
تحریر کے آخر میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ چوٹی زیریں اور اس کے نواح میں رہائش پذیر "بُزدار قبائل” سب سے پہلے اپنے اندر سیاسی و سماجی پختگی پیدا کریں۔ حصولِ تعلیم پر بھرپور توجہ دیں۔ اپنا دفاعی نظام بہتر سے بہتر بنائیں۔ قبائلی سیاست ایماندار شخصیت کے سپرد کریں۔ ذہین و فتین، دانش ور اور باصلاحیت قائدین تلاش کریں جو پورے قبائل کی ذمہ داری بطریقِ احس نبھا سکیں۔ تمام تر کرپٹ اور ناخواندہ سیاست دانوں کو اپنے "بزدار قبائل” سے نکال باہر پھینک دیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ