نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’ جسٹس قاضی فائز عیسی پر بطور جج کرپشن کا کوئی الزام نہیں‘

بابر ستار نے کہا یہ کیس رہفرنس دائر کرنے سے متعلق صدر کے اختیار کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایگزیکٹو جج کو نوٹس جاری کر سکتے ہیں یا نہیں؟

اسلام آباد: سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر درخواستوں پرآج بھی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کی قانونی ٹیم کے ممبر بابر ستار نے آج بھی دلائل دیے ۔

دوران سماعت جسٹس سجاد علی شاہ نے بابر ستار سے کہا جسٹس فائز عیسی نے اہلیہ اور بچوں کو کوئی گفٹ نہیں دیا،

جو دلائل آپ دے رہے ہیں وہ گفٹ دینے سے متعلق ہیں،جب گفٹ دیا ہی نہیں تو اس نقطے پر دلائل کا ہم کیا کرینگے؟

بابر ستار نے کہا ریفرنس میں نہیں بتایا گیا کہ جسٹس فائز عیسی نے اثاثے کیوں ظاہر نہیں کیے؟ جسٹس فائز عیسی بطور وکیل بھی ٹیکس ادا کرتے تھے،یہ الزام بھی نہیں کہ جسٹس فائز عیسی لندن فلیٹس خریدنے کے قابل نہیں تھے۔ لندن فلیٹس چھپانا مقصد ہوتا تو آف شور کمپنی بنا لیتے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا  جسٹس فائز عیسی پر بطور جج کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔

بابر ستار نے کہا ایسا کوئی مواد نہیں کہ لندن اثاثے جسٹس فائز عیسی کی ملکیت ہیں۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ  کیا جسٹس فائز عیسی کے بچوں کے پاسپورٹ سرکاری ہیں؟

اس پر جسٹس قاضی فائز کے وکیل منیر اے ملک نے جواب دیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے دونوں بچوں کے پاس ہسپانوی پاسپورٹ ہیں۔

باابر ستار نے کہا سرکاری دستاویزات کے مطابق لندن فلیٹ جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ کے زیر استعمال ہیں۔

بابر ستار نے  دلائل کے دوران پانامہ کیس کا حوالہ  دیتے ہوئے کہا کہ  پانامہ فیصلے کے مطابق مریم نواز اپنے والد کی زیر کفالت نہیں،زیرکفالت نہ ہونے پر نوازشریف مریم کے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند نہیں تھے۔ جسٹس فائز عیسی آرٹیکل 209 کے تحت تحفظ نہیں مانگ رہے۔ وہ چاہتے ہیں ٹیکس حکام الزامات کی انکوائری کریں۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا آرٹیکل 209 صرف تحفظ نہیں بلکہ استحقاق بھی ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم عمران خان کے بیان کا تذکرہ بھی ہوا ۔ بابر ستار نے کہا وزیر اعظم عمران خان نے کل چیف جسٹس اور مستقبل کے چیف جسٹس کو مخاطب کرکے بیان دیا،وزیر اعظم نے بیان میں امیر غرب کے لیے الگ الگ قانون کی بات کی۔ وزیر اعظم نے چیف جسٹس اور مستقبل کے چیف جسٹس کو معاملہ کی درستگی کی استدعابھی کی ۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا سیاسی بیانات کے لیے یہ فورم استعمال نہ کریں،کوئی بھی ادارہ مکمل پرفیکٹ نہیں ہے۔ہر ادارےمیں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے،ماتحت عدلیہ کے ایک جج کیوجہ سے پوری عدلیہ کو شرمندگی اٹھانا پڑی.

دس رکنی لارجر بنچ کے سربراہ نے کہا اس روسٹرم پر وزیر اعظم اور انکی اہلیہ بارے بات نہ کریں.وزیر اعظم کے بیان کو قانون کے تناظر میں دیکھ لیں گے.عدلیہ کو وقار اور عوام کو اعتماد کو بحال رکھنا ہے.

بابر ستار نے کہا میں سیاسی بات نہیں کر رہا،عمومی طور پر عدالتی فیصلہ سے ایک فریق خوش اور ایک ناخوش واپس جاتا ہے.وزیر اعظم کے بیان سے لگا وہ خوش نہیں ہیں.میں وزیراعظم پر تنقید ہر گز نہیں کر رہا،بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک تاثرقائم ہے ،جب ایک فریق عدالتی فیصلے سے ناخوش ہوتا ہے اس پر تنقید کرتا ہے۔

جسٹس فائز عیسی کے وکیل نے کہا  ہم دیکھ سکتے ہیں وزیراعظم بھی ایک حالیہ فیصلے سے خوش نہیں تھے جب انہوں نے یہ بیان دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل نے کہا اثاثے چھپانے کا سوال تب پیدا ہو گا جب ظاہر کرنا لازم ہو۔

جسٹس عمر نے کہا  جج صاحب کی اہلیہ پر تو اثاثے ظاہر کرنا لازم تھے،

بابر ستار نے جواب دیا اگر ٹیکس اتھارٹی مطمئن نہیں تھی تو 25 ہزار جرمانہ کر سکتی تھی،جج کا احتساب اہلیہ یا بچوں کے اقدامات پر نہیں ہو سکتا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا اگر جج کے بچے اور اہلیہ فائدے انجوائے کررہے ہوں تو کیا پھر بھی انکے اقدامات پر  احتساب نہیں ہو سکتا؟

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچے انکے عہدے کے فائدے نہیں لے رہے،افتخار چوہدری کیس کے مطابق تو جج کے اہلخانہ کو بھی محتاط رہنا ہو گا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا جج کی بیٹی شادی ہونے کے بعد میڈیکل سہولیات بھی نہیں لے سکتی،جج کے بیٹے کی عمر اگر 25 سال ہو تو وہ بھی والد کے عہدے کے فوائد نہیں لے سکتا۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا اگر جائداد کا تعلق جج سے ثابت ہو جائے تو پھر زیر کفالت ہونے یا نہ ہونے کا سوال نہیں رہتا۔

بابر ستار نے کہا جج کی اہلیہ مہنگی گاڑی چلائے تو جج کو کرپٹ نہیں کہا جا سکتا۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے برجستہ کہا اگر جج خود بھی مہنگی گاڑی چلائے تو بھی کرپٹ نہیں کہا جا سکتا؟

جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہ  گونج اٹھا

جسٹس منیب اختر نے کہا کیا آ پ کہہ رہے ہیں کہ صرف کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے؟ مس کنڈکٹ ہے؟

بابر ستار نے کہاجج بھی شہری ہیں روزمرہ زندگی کے معمولات میں ایشو ہو سکتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا سپریم جوڈیشل کونسل ربر سٹمپ نہیں،ججز کے خلاف دائر شکایات کونسل ختم کرتی ہے ججز کو علم بھی نہیں ہوتا۔ کیا وجہ ہے کہ آپ کونسل کی کارروائی سے بچ رہے ہیں۔

بابر ستار نے کہا یہ کیس رہفرنس دائر کرنے سے متعلق صدر کے اختیار کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایگزیکٹو جج کو نوٹس جاری کر سکتے ہیں یا نہیں؟

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا اگر کوئی جج سے اعلی معیار چاہے تو یہ اچھی بات ہے۔

بابر ستار نے کہا کیس میں بھی جج اور انکی اہلیہ سے متعلق بات کی گئی ہے،ریفرنس میں کوڈ آ ف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کا نہیں کہا گیا، سوال یہ بھی ہے کیا پرانے عہدے پر مس کنڈکٹ موجودہ عہدہ سے ہٹانے کیلئے استعمال ہو سکتا ہے ؟

جسٹس قاضی فائز کے وکیل نے کہا  میرا موقف ہے صدر کو ریفرنس بھیجنے سے پہلے شواہد کا جائزہ لینا چاہیے تھا،صدر مملکت کے سامنے کسی جج کیخلاف مواد شک و شبہ سے بالاتر ہونا چاہیے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا صدر مملکت کے سامنے مواد شک و شبہ سے بالاتر ہو تو کونسل کو بھیجنے کی کیا ضرورت ہے؟

اس پر بابر ستار نے کہا صدر مملکت کا کسی جج کیخلاف ریفرنس بھیجنا سنجیدہ معاملہ ہے۔

بابر ستار کے دلائل جاری تھے کہ  کیس کی سماعت اگلے ہفتے بدھ تک ملتوی کردی گئی

About The Author