میں نے اپنے گزشتہ کالم میں یہ سوال اُٹھایا تھا کہ کیا بولیویا پھر بولے گا؟ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بولیویا میں دائیں بازو کے مذہبی انتہا پسندوں کی پُرتشدد تحریک میں بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری اور اس کے نتیجے میں صدر ایوا مورالس کے استعفے کے باوجود مقامی ریڈ انڈین اور ان کی ہمنوا وطن دوست لاطینی ہسپانوی آبادی نے سامراجی کاسہ لیس مہم جوؤں کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا ہے۔ دائیں بازو کی قیادت اور ان کے سرپرستوں کو یہ خوش گمانی تھی کہ جس طرح ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک میں دائیں بازو کے متشدد انتہا پسندوں کی پُشت پناہی کرکے عوام دوست اور وطن دوست قیادتوں کو پُرتشدد ہنگاموں اور وہاں کی بیوروکریسی کی بغاوتوں کے ذریعے سیاسی عمل سے علیحدہ کیا گیا، اس طرح کا عمل بولیویا میں بھی کامیاب رہے گا اور یوں ایک کٹھ پتلی کو آگے لاکر “آزاد دنیا” کے ایجنڈا کو آگے بڑھایا جاسکے گا۔ ایوا مورالس کے استعفے کے بعد حزبِ اختلاف کی مذہبی انتہاپسند ہسپانوی نژاد خاتون سینیٹر جینائن آنز کو عین اس روز بطور صدر آگے لایا گیا جس روز اس راقم نے یہ سوال اُٹھایاتھا کہ کیا بولیویا پھر بولے گا۔
بولیویا کے عوام نے اب تک ایک لمحے کیلئے بھی اس پتلی تماشا کا حصہ بننا قبول نہیں کیا۔ جینائن نے آتے ہی مذہبی کارڈ استعمال کیا اور ہاتھ میں بائیبل کی چمکتی ہوئی جلد پکڑ کرلہراتے ہوئےکہا کہ “صدارتی محل میں ایک بار پھر بائیبل داخل ہوگئی ہے۔”
دیکھنے میں خوشنما نظر آنے والی مذہبی انتہا پسند جینائن نے پسماندہ ممالک کے ماضی اور حال کے کئی حکمرانوں کے پرانے اسکرپٹ کو لفظ بہ لفظ دہراتے پوئے اعلان کیا کہ وہ نوے روز کے اندر انتخاب کرانے کے ایک نکاتی پروگرام کے ساتھ بر سر اقتدار آئی ہیں۔ انہوں نے اقتدار سنبھالنے پر کسی جوش وخروش کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا گیا کہ عبوری حکومت اور اپوزیشن (مورالس کی پارٹی) کے درمیان پُر امن انتخابات کا معاہدہ بھی طے پاگیاہے مگر ابھی اس معاہدے کی سیاہی بھی خُشک نہ ہونے پائی تھی کہ خُوبرو کٹھ پتلی نے اپوزیشن کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی ناکامی کا اعلان کردیا۔
اس اعلان کے ساتھ ہی حکومت اور حکمرانی کی ذمہ داریوں سے آزاد مورالس کی پارٹی سڑکوں پر آگئی اور یوں بولیویا بول اُٹھا اور صاف طور پر یہ آواز سنائی دینے لگی کہ بولیویا کے ہزاروں برس قدیم مقامی باشندے اب کسی طور پر خاموش نہیں رہیں گے۔ بولیویا نے اپنے ریڈ انڈین ہونے کے ماضی کے رچاؤ کا ادراک کرلیا اور اس نے ترقی پسندی اور روشن خیالی کی صدائے عصر کو سن بھی لیا ہے اور اس صدا سے اپنے آپ کو اور اپنی آوازوں کو ہم آہنگ بھی کرلیا ہے۔
بولیوین دارلحکومت لاپاز اور دیگر شہروں کی سڑکوں، شاہراہوں اور گلیوں میں مقامی آبادی کے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مظاہرین پولیس کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔ وہ کہتے ہیں کہ “ہمیں محض اس لئے نشانہ بنایا جارہا ہے کہ ہم اس دھرتی کے بیٹے ہیں جسے آبادکاروں نے بُری طرح روندا، لُوٹا اور ہماری نسل کشی کی گئی۔ مورالس کے خلاف اس لئے بغاوت کی گئی کہ اس نے صدیوں سے کچلے جانے والے مقامی لوگوں میں زندگی کی روح پھونکی۔ اس نے اس سرزمین کے تاریخی مفادات کا سودا نہیں کیا۔
اس نے اس دھرتی کی روح کو دریافت کیا۔” اس ملک میں دو قومی پرچم ہیں، جب ریڈ انڈین آبادی کے پرچم پر حملہ کیا گیا تو عوامی احتجاج کو مہمیز ملی اور اس عمل نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مظاہرین نے مورالس کی واپسی کے حق میں نعرے لگائے۔ واضح رہے کہ صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد ایوا مورالس نے میکسیکو میں جلاوطنی اختیار کرلی تھی۔سوشل میڈیا پر یہ دکھایا گیا کہ پولیس مقامی ریڈ انڈین آبادی کے پرچم کو اپنی وردی سے نوچ کر پھینک رہی ہے اور مورالس کے مخالفین وردیوں سے نوچے گئے پرچموں کو جلا رہے ہیں۔ اس منظر کے وائرل ہوتے ہی ہنگاموں اور جلاؤ گھیراؤ میں شدت آگئی۔
پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی مدد سے برسراقتدار آنے والی مذہبی انتہا پسند خُوبرو جینائن آنز کے پاس اتحاد کا واحد نقطہ عیسائیت اور پاپایت کی سخت گیری ہے۔ عبوری صدر جینائن نے بولیویا کے عوام سے نوے روز میں الیکشن کرانے اور اقتدار ملک کے منتخب نمائیندوں کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں جینائن نے مورالس کی پارٹی سے ہونے والے نوے روز میں الیکشن کے معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس کی وجہ بھی نہیں بتائی۔
اس وقت بولیویا میں ایوا مورالس کی مقبولیت اپنے عروج پر ہے۔ معزول صدر مورالس نے اپنے ملک میں غربت، افلاس، جہالت اور بیماری سے جنگ لڑی اور اس میں کامیابی حاصل کی۔مورالس نے اپنے بچپن میں اپنے چھ میں سے چار بہنوں اور بھائیوں کو بُھوک، ناکافی اور ناقص غذا اور بیماری کے ہاتھوں دم توڑتے دیکھا۔ وہ پانچ برس کی عمر میں مزدوری کے کام پر لگ گئے تھے۔ انہوں نے کھیتوں میں ہل جوتے، کھیتی باڑی کی۔ انہوں نے بھٹیوں میں ہتھوڑیوں سے کام کیا۔ انہوں نے فٹ بال کھیلی، انہوں ٹریڈ یونین سرگرمیوں سے سیاست کا آغاز کیا اور پھر سیاسی اُفق پر چھا گئے۔
ان دنوں لاپاز اور اس کے جڑواں شہر ال آلتو اور دیگر شہروں میں جگہ جگہ مقامی ریڈ انڈین آبادی کا پرچم “ویفالا” لہرا رہاہے۔ مقامی آبادی کے تاریخی حق کا احترام کرنے والے ہسپانوی آبادکار بھی مورالس کی جلاوطنی کے خاتمے اور ان کے اقتدار کی بحالی کیلیے ان کے ساتھ ساتھ سڑکوں اور گلیوں کے مظاہروں میں شریک ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کا سامراجی کارڈ بُری طرح پِٹ رہا ہے۔بولیویا کے عوام نے کمزور معیشت کی بحالی کرنے والے لیڈر کی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر آزاد دنیا کے مالیاتی اداروں کے کاسہ لیسوں کے قبضہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
چند روز قبل سوال یہ تھا کہ کیا بولیویا پھر بولے گا؟ اور اب دنیا دیکھ رہی ہے کہ بولیویا بول پڑا اور بولیویا بول رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پتلی تماشہ کب ختم ہوتا ہے اور عوام اپنا اقتدار اعلی دوبارہ کب حاصل کرتے ہیں۔ فیصلہ سڑکوں پر ہوگا یا مذاکرات کی میز پر ہوگا۔ عوام ایک انقلابی عمل سے گزر رہے ہیں اور اب وہ حالات پر کڑھنے کی بجائے حالات کو اپنے حق میں بدلنے کی سرتوڑ جدوجہد میں مصروف ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ انہیں کسی لولی پاپ سے بہلایا نہیں جاسکے گا اور وہ صدیوں بعد 2006ء میں کامیاب جدوجہد کے ذریعے حاصل ہونے والی اپنی کامیابیوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ