گھڑی کی سوئیاں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں، دن ہفتوں کی مانند، ہفتے مہینوں کے مثل اور مہینے برسوں کی طرح سرعت سے گزر رہے ہیں۔ تیزی سے اس دنیا کی بدلتی صورت حال کے پیش نظر انسان بھی مشین کی طرح اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہے بلکہ اسی تیز رفتاری سے عملاً ایک مشینی پُرزہ بن کر میدان میں برسر عمل دکھائی دے رہا ہے۔
آج یہی تیز رفتاری سے گذرتے ہوئے مناظر ہمیں حقیقی طور پر اپنی گلی، محلوں اورسڑکوں پر نظر آتے ہیں جیسے کسی نے سپیڈ کا بٹن دبا دیا ہو۔ایک افراتفری اور گہما گہمی کا ایسا شور ہے کہ غور سے دیکھنے پر لوگوں کی دماغی حالت پر شک ہونے لگتا ہے۔ہم اکثرزمانے کی تیز رفتاری کا شکوہ کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ وہ ہم ہی ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی سوچ اور دوڑ سے زمانے کی رفتار کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ذاتی مفادات کے حصول کی دوڑ میں افراتفری کاشکار ہو کر عجلت اور نفسا نفسی کو خود پر مسلط کر لیا ہے۔ ہر شخص مفادات کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے درپے ہے۔ یہ تیز رفتاری اصل میں ہمارے دماغوں میں ہے اور طبیعت کی اس ہنگامہ آرائی کا برملا اظہار ہمیں جا بجا گلی، محلوں اور سڑکوں پر کوئی ترقی، کوئی نمبروں ، کوئی مقام، کوئی بلندی، کوئی رزق، کوئی کسی کو نیچا دکھانے، کوئی آگے نکلنے، کوئی حاصل کرنے اور کوئی موٹر سائیکل پہ بیٹھا تیز رفتاری میں نظر آتا ہے، جس کو دیکھو تیزی میں ہے اور اس تیز رفتاری میں وہ بھول جاتا ہے کہ میں کس کس کو کیا کیا نقصان پہنچا رہا ہوں، اُسے تو بس جلدی ہے ، تیزی ہے۔ فی زمانہ ہر شخص مشینی زندگی گزاررہا ہے،لگے بندھے معمول کے مطابق کاموں کو نمٹانے کے دوران اسے اتنا وقت نہیں مل پاتا کہ وہ تنہائی میں بیٹھ کر، تمام فکروں سے وقتی چھٹکارا حاصل کرکے ذہن کوآزاد چھوڑ سکے اور سوچ سکے کہ میں ہر کام میں اتنا تیز کیوں ہو، اسکے فوائد و نقصانات کیا ہیں ؟
جدید مُعاشرے کی ایک عجیب خاصیت ہے کہ یہاں سیکھنے کا عمل بڑا تیز ہے۔ ماں کی گود بھی اب سَستانے اور سیکھنے کے عمل کےلئے تنگ پڑ رہی ہے۔ چونکہ ہر اِک کو تیز بھاگنا ہے اور سُکون نہ کرنے کا رواج عام ہے تو پھر تیز رفتاری کا پیدا ہونا لازمی اَمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے معاشرے نے تیز رفتاری کی بدولت سب کچھ تو سیکھ لیا لیکن کہیں لمحہ بھر کےلئے ٹھہرنے کا قرینہ نہیں سیکھا۔ اور خاص کر جہاں بچے وقت سے پہلے جوان ہوچُکے ہوں، بزرگ ضرورت سے زیادہ بے باک نظر آتے ہوں، تو یقینا تیز رفتاری کے بے لگام گھوڑے کو ایسا تیز بھگائیں گے کہ کہیں ہم سے پہلے خزانہ عرب و عجم کوئی اور حاصل نہ کر لے۔ اس زندگی کی تیز رفتاری میں کمر عمر بچوں اور نوجوانوں کی شہر میں موٹر سائیکل کی تیز رفتاری نے تو وقت سے پہلے ہی محشر بپا کیا ہوا ہے۔
ہمارے شہر کی گلیاں، محلے اور سڑکیں ایسی نہیں ہیں کہ ان پہ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو تیز رفتاری سے بھگایا جا سکے، اسکے باوجود کم عمر نوجوان اپنی جوانی مستانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس رفتار اور انداز سے موٹر سائیکل سرکش گھوڑے کی مانند دوڑاتے ہیں، وہ حیرت انگیز ہے اور اس کے نتیجے میں مہلک حادثات لوگوں اور نوجوانوں کی زندگیوں کا کھیل بنے ہوئے ہیں۔ان حادثات میں نوجوان یا تو جانوں سے چلے جاتے ہیں یا پھر ہاتھ پیروں سے معذور ہو جاتے ہیں۔ چند منٹوں کا انتظار نہ کرنا انھیں عمر بھر کی محتاجی دے دیتا ہے۔ ہسپتالوں میں زیادہ تر روڈ ایکسیڈنٹ کے زخمیوں کی تعداد اپنی غفلت کی وجہ سے اس حالت پر پہنچتی ہے ۔ موٹر سائیکل چلانا کوئی فن نہیں۔ مگر جب یہ سواری کم عمر سوار کے ہاتھ لگ جاتی ہے تو وہ خود کو دنیا کا تیز ترین انسان سمجھنے لگتا ہے۔ اسی غلط فہمی میں کسی کی جان لینا آسان ہے مگر ان سے پوچھے کہ جس کے گھر سے یا گھر کو چلانے والے کی موت واقع ہو جاتی ہےاور اس کے گھر پر کیا گزرتی ہے صرف خدا ہی جانتا ہے، مطلب نہ پہنچنے سے دیر میں پہنچنے کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
کم عمر کے نوجوان موٹر سائیکل پر اکٹھے ہو کر پہلے تیز رفتار میں موٹر سائیکل چلاتے ہیں جس کے بعد ان کو اچانک ون ویلنگ کا جنون آتا ہے اور وہ موٹر سائیکل کااگلا پہیہ اٹھا کر ایک ٹائر پر موٹر سائیکل چلانے کا خطرناک کھیل کھیلتے ہیں ان میں سے بعض تو یہ کھیل تھوڑا سا کھیلنے کے بعد گر کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا پھر عمر بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔ ایسے کھیل کا کیا فائدہ جس کے کھیلنے سے انسا ن دوبارہ اٹھنے کے قابل ہی نہ رہے یا ہمیشہ کے لئے ہی چلا جائے۔یہ کھیل نوجوان صرف اپنی تسکین اور توجہ حاصل کرنے کے لیئے اور اپنے آپ کو بہادر دکھانے کے لیئے تیز رفتاری اور ون ویلنگ کا کھیل کھیلتے ہیں، حالانکہ یہ ایک بے وقوفی کے علاوہ کچھ نہیں۔
جب والدین ہی اپنی زندگی کی تیز رفتاری میں مگن ہوں تو اپنے بچوں کی موٹر سائیکل کی خطرناک تیزرفتاری اور ون ویلنگ پہ کیسے توجہ دیں گے۔ وہ تو صرف اس تیزی سے سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کس تیزی سے وہ عوامل اور مواقع حاصل کئے جائیں کہ تیز رفتاری سے جلد از جلد اپنے پڑوسی اور خاندان کے دوسرے نوجوانوں کی نسبت اپنے بچے کو نئی ماڈل کی تیز رفتار موٹر سائیکل لے کے دیں، تاکہ خود کو ان سے اعلٰی ثابت کر سکیں۔ وہ اپنے بچے کو یہ نہیں بتاتے کہ دیگر سواریوں کی نسبت موٹر سائیکل خطرناک سواری ہے، دوسروں کے مقابلے میں قوانین پر عمل درآمد، اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کے تحفظ اور احتیاط کا مظاہرہ کیسے کرنا ہے۔ والدین اپنے تجربے اور روزمرہ ایسے واقعات و نقصانات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں، لیکن کبوتر کی طرح آنکھیں موند لیتے ہیں، جو کہ ایک خطرناک پہلو ہے۔ تب وہ نوجوان موٹر سائیکل کی تیزرفتاری اور ون یلنگ کو “شغل“ کا نام دے کر اپنی یا کسی اور کی قیمتی زندگی کا چراغ گل کر دیتا ہے۔
رات کو مطالعے یا ٹی وی پہ ٹالک شو سے فراغت کے بعد ضرور سوچیں کہ آخر ہمارے اِس معاشرے میں جاری تیز رفتاری کی سرکس کا کوئی خاتمہ بھی ہے؟ اب آپ کہیں یہ مت کہیئے گا کہ موت ہی تمت بالخیر ہے۔ موت تو صرف ایک فرد کے اِس دُنیا سے ناطہ توڑنے کا نام ہے لیکن مُعاشرتی سانسیں تو اُسی تیز رفتاری کے ساتھ چل رہی ہوتی ہیں جس تیز رفتاری میں اُس فرد نے اپنی جان دےدی۔ سوچتے سوچتے تھک جائیں گے مگر تیز رفتاری کی سرکس کے جواب کی امید شاید پیدا نہ ہو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر