نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حسن مرتضی

مجرم اگر ہمارا قریبی ہے تو ہر صورت اس کا دفاع کیا جائے۔۔۔حسن مرتضی

واقعی جب نام وردی کا آجائے تو عزت کرنی تو بنتی ہے۔ شاید اس لیے سزا یافتہ مجرم کو پاکستان میں نوکری سے نوازا گیا.

ہمارے بے ہنگم معاشرے کی روایات میں شامل ہے کہ مجرم اگر ہمارا قریبی ہے تو ہر صورت اس کا دفاع کیا جائے۔

بچوں کے ساتھ ریپ کرنے والے سہیل ایاز کا والد ویڈیو بیان میں اپنے بیٹے کو بے گناہ قرار دے رہا ہے اور اداروں کو کوس رہا ہے کہ انھوں نے اس کی عزت خراب کردی کیونکہ ان کی فیملی میں دس بارہ آرمی افسر ہیں ۔ ان کی فیملی اونچی ہے ۔ سہیل بے قصور ہے اور ادارے کسی سے بھی کچھ بیان لے سکتے ہیں۔

واقعی جب نام وردی کا آجائے تو عزت کرنی تو بنتی ہے۔ شاید اس لیے سزا یافتہ مجرم کو پاکستان میں نوکری سے نوازا گیا.

پولیس نے پریشر ڈال کر سہیل کو ریپ کرنے پر مجبور کیا ہوگا ۔ پھر پریشر ڈال کر اسے یہ لائیو چلانے پر مجبور کیا ہوگا اور اس کے پیسے بھی کسی سیاستدان کے کھاتے ڈالے جاسکتے تھے اگر تعلق کسی سیاسی فیملی سے ہوتا ۔ مگر افسوس وردی والی فیملی ہے تو یہ را کی سازش بھی ہوسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے را ہی بچے بھیجتی ہو اب فوجی پس منظر سے تعلق رکھنے والا انسان تو ایسا کر ہی نہیں سکتا. ہاں اگر کرے بھی تو اس سے فوجی رشتے داروں کا کیا تعلق ۔ ؟

البتہ اگر یہ پیپلز پارٹی کے کسی رہنما کا رشتہ دار ہوتا تو اب تک ضرور زرداری پر ڈارک ویب سے تعلق رکھنے کا ریفرنس بھی بن چکا ہوتا۔

اگر تعلق تحریک انصاف سے ہے تو کیا ہوا۔ ان لوگوں کا کام ہی بھونکنا ہے اپنے خان پر ۔جہاں تک ہماری اپنوں کو سزا سے بچانے والی نفسیات کا تعلق ہے جس کے زیر اثر بابا جی بڑے زعم سے اپنے بیٹے کو پاک صاف حاجی قرار دے رہے ہیں تو یاد رکھیں اگر اپنے اتنے ہی پیارے ہیں تو انھیں جرم سے بچا کے رکھیں. داڑھی رکھ یہ دھوکا تو دیا جاسکتا ہے کہ میں نیک انسان ہوں مگر اچھے باپ کے فرائض ادا کرنے لیے بہت کچھ اور بھی کرنا پڑتا ہے۔

بابا جی جس دین اسلام کی محبت میں داڑھی رکھے ہوئے ہیں اسی کے پیغبر ص نے فرمایا ” مری بیٹی فاطمہ ع بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیتا” ۔ بابا جی اب بجائے رونے دھونے کے داڑھی کا حق ادا کرتے ہوئے کہو لاؤ پتھر دو میں خود اپنے مجرم بیٹے کو سنگسار کروں گا۔

ان واقعات کا سدباب سہیل یا کسی دیگر مجرم کو پھانسی دینے سے نہیں ہوگا بلکہ معاشرے میں موجود شدید جنسی گھٹن کے خاتمے سے ہوگا جس میں ہر جنس کو برابری کی سہولیات اور ترقی کے مواقع دیے جائیں ۔ معاشرہ تب ہی ایسی غلاظتوں سے پاک ہوگا جب ہم پر مسلط کی گئی بیرونی تہذیبوں اور زبانوں کو چھوڑ کر ہماری اپنی مٹی کی تہذیب اور فوک موسیقی ہم کو نصاب میں دی جائے گی ۔
ہمارا نصاب ہمیں صرف جنگجو بنا رہا ہے اور ہر جنگجو جنسی بھوک مٹانے کےلیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے

About The Author