بدھ کی شام مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے”پلان بی” کا اعلان کردیا۔
سوشل میڈیا پر ایک ستمگر نے لکھا
”27بسوں اورٹرکوں میں15لاکھ افراد واپس چلے گئے”
یہ آزادی مارچ دھرنا کیوں دیا گیا؟۔
مولانا کا موقف
(9جماعتی اپوزیشن موقف سے متفق تھی مگر9میں سے تین جماعتیں دھرنے پر متفق نہیں تھیں)
تھا2018ء کے انتخابی نتائج چرائے گئے ،پی پی پی ،نون لیگ ،اے این پی سمیت متعدد جماعتیں روز اول سے یہی موقف رکھتی ہیں ۔
البتہ جے یو پی نورانی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی آزادی مارچ اور دھرنے میں مولانا کے شانہ بشانہ رہیں۔
کراچی سے اسلام آباد تک نون لیگ اور پیپلزپارٹی نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس آزادی مارچ کا استقبال کیا۔
البتہ نون لیگ کے گڑھ لاہور اور جی ٹی روڈ پر لیگی ٹھنڈے ٹھار تھے۔
دھرنا مارچ جس دن لاہور پہنچا میاں نواز شریف نیب کی تحویل سے ہسپتال پہنچ چکے تھے ۔
لاہور میں آزدی مارچ کے جلسہ میں لیگیوں کی دوسرے تیسرے بلکہ ساتویں درجہ کی قیادت نے بھی شرکت سے گریز کیا۔
آزادی مارچ اسلام آباد پہنچ کر دھرنے میں تبدیل ہوا تو دو دن بلاول بھٹو خطاب کے لیے پہنچے اور ایک دن میاں شہباز شریف ایک آدھ دن مزید ان دونوں بڑی پارٹیوں کے دوسرے اور تیسرے درجے کے رہنمائوں نے تقاریر کیں ،
زیادہ تر جے یو آئی(ف) کے رہنمائوں مولانا انس نورانی اور محمود خان اچکزئی کے علاوہ مارچ کے قائد مولانا فضل الرحمن نے ہی تقاریر کیں۔
لوگ کہتے ہیں یہ آزادی مارچ اور دھرنا میاں نواز شریف کو ریلیف دلوانے کے لئے تھا۔
ایسا ہے تو دھرنا بدھ کی شام اچانک کیوں ختم کردیا گیا کیونکہ ریلیف ابھی مکمل نہیں ہوا؟۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ نون لیگ نے اپنے قائد نواز شریف کے خط پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا۔سوال یہ ہے کہ اس خط میں کیا لکھا ہے کہ دھرنے میں شرکت کی جائے؟۔
کمرشل لبرلز کے ساتھ کچھ کچے پکے ترقی پسند پیپلزپارٹی کو کوستے رہے ہیں کہ اس نے آزادی مارچ دھرنے کا ساتھ نہیں دیا۔
کچھ نون لیگ پر چاند ماری میں مصروف رہے ہیں۔
پی پی پی کے نیئر بخاری اور سعید غنی کا کہنا ہے کہ
”دھرنے کے لئے مشورہ کیا گیا نادھرنا ختم کرنے کے لئے”۔
مولانا فضل الرحمن جمعیت علمائے ہند کی سیاسی وراثت کا وارث ہونے کے دعویدار ہیں۔
ان کی جماعت کو تقسیم کے بعد جمعیت علمائے ہند کا پاکستان ایڈیشن ہی سمجھا جاتا ہے
مگر حیران کن بات یہ ہے کہ جمعیت علمائے ہند آج بھی سیکولر سیاست کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے اور ہمارے مولانا اپنے وسیع مطالعے اور لمبی جدوجہد کے باوجود ایک خاص فہم کے مذہبی رہنما کی شناخت سے آگے نہیں بڑھ سکے
آزادی مارچ اور دھرنا اگر مولانا کی سیاسی قوت کا مظاہرہ تھا تو وہ اس میں کامیاب رہے مگر سوال یہ ہے کہ اس سیاسی قوت کے شاندار مظاہرے کا حاصل وصول کیا ہے؟
استعفیٰ عمران خان نے دیا نہیں۔دعوے مولانا کے پورے نہیں ہوئے،جاتے ہوئے بھی وہ خالی ہاتھ تھے
اب انہوں نے احتجاج کا دائرہ ملک بھر میں پھیلانے کا اعلان کیا ہےتوکیا ملک گیر احتجاج کے اپنے پروگرام سے وہ وزیراعظم کا استعفیٰ اور نئے الیکشن کے احکامات حاصل کرلیں گے؟
سادہ سا جواب یہ ہے کہ بظاہر مشکل ہے
”فقیر راحموں کہتے ہیں کہ اس13روزہ دھرنے کا حاصل وصول آرمی چیف سے مولانا کی وہ تین ملاقاتیں ہیں جن میں ایک دھرنے سے قبل اور دو دھرنے کے دوران ہوئیں”۔
خود مولانا ان ملاقاتوں کا تو نہیں ملاقات کا اعتراف کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ
”اب تو جنرل باجوہ سے ہماری دوستی ہوگئی ہے”۔
سیاست وصحافت کے اس طالب علم کی رائے میں مولانا سے تین بڑی غلطیاں سرزد ہوئیں
اولاً انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو للکارا اور پھر دو ملاقاتوں میں رام ہوگئے ۔
ثانیاً اپنی سیدھی سادھی جمہوری مطالبات کی جدوجہد کے دوران انہوں نے مذہبی شدت پسندی کا چولہا جلا کر یہودی قادیانی مارکہ دودھ جلیبیاں فروخت کرنے کی کوشش کی۔
ثالثاً انہوں نے اسلام آباد پہنچتے ہی وزیراعظم کو مستعفیٰ ہونے کے لئے دو دن کا الٹی میٹم دیا۔
بظاہر وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے لیکن ایک مطالبہ بھی منظور نہیں ہوا
اور”دودھ جلیبیوں” کے خریدار بھی نہیں ملے۔
مولانا کے آزادی مارچ اور دھرنے کے حوالے سے حکومتی رہنما اور زعما کے بیانات پر تبصرہ غیر ضروری ہوگا۔
مگرخود اس بات پر تجزیہ بہت ضروری ہے کہ سال چھ ماہ تک بیٹھے رہنے کے دعویدار13دن بعد رخصت کیوں ہوگئے
مولافضل الرحمن اور ان کے ساتھی اس بات پر بجا طور تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے27اکتوبر سے13نومبر کی شام تک کسی بھی موقع پر قانون نہیں توڑا یوں یہ مارچ اوردھرنا پرامن انداز میں ختم ہوگئے
کیا اب اہل ایمان ”ادھرڈوبے اُدھر نکلے” کا مظاہرہ کریں گے
ضمنی بات یہ ہے کہ کیا محض لہو گرم رکھنے کا بیان تھا اور ریاست کو یہ باور کروانا کہ
"ہم اب بھی وجود رکھتے ہیں؟”۔
ایسا ہے تو مولانا اس میں کامیاب رہے سال2001ء میں وہ جماعت اسلامی کی جگہ جن کے نظریاتی حلیف بنے تھے انہوں نے ان کی حیثیت کو پھر سے قبول وتسلیم کرلیا۔
لیکن سیاسی طور پر وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر پائے۔
بہت ادب سے کہوں اگر مولانا نفرت عمران میں دھرنے کے دوران آزادی مارچ کے دودھ میں یہودی قادیانی جلیبیاں ڈال کر فروخت نہ کرتے تو آزادی پسند جمہوریت پرستوں کی تائید حاصل کر سکتے تھے
مگر شدت جذبات میں وہ ایسی باتیں کہہ گئے جن سے جمہوری قوتیں ان سے دور ہو تی چلی گئیں ۔
پچھلے چالیس برسوں کے دوران مولانا کی زندگی کے کئی رنگ ڈھنگ دیکھنے متعدد ملاقاتوں میں سیر حاصل گفتگوئوں اور حالیہ تقاریر(ان تقاریرپر تحفظات کا اظہار ان کالموں میں کرتا رہا ہوں) کے باوجود میں اب بھی اس رائے پر قائم ہوں کہ
وہ اپنے مسلک کے سب سے زیادہ وسیع المطالعہ شخص ہیں۔
پھر پتہ نہیں کیوں انہوں نے اپنی جمہوری جدوجہد کو مذہبی شدت پسندی کی دہلیز پر قربان کردیا۔
افسوس کہ ان جیسے شخص کو یہ بات سمجھ میں نہ آسکی کہ
”دکھ اور طرح کے ہیں اور دوا اور طرح کی”
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر