میرے گاوں میں ایک یوٹیلٹی سٹور ہے جو روزانہ اپنے وقت پر صبح کھلتی ہے اور شام کو وقت پر بند ہوتی ہے ۔ میں روزانہ آتے جاتے یوٹیلٹی سٹور والے سے پوچھتا ہوں کہ بھائی کوئی سودا سود آیا ہے تو وہ کہتا ہے نہیں بھائی خیر خیریت کی رپورٹ ہے۔
یعنی سپلائی کچھ نہیں آ رہی بس پرانی مصالحے کے پیکٹ۔ماچس کے ڈبے ۔کچھ واشنگ پاوڈر رکھے ہوے ہیں جن کی قیمت بازار کی قیمت کے برابر ہے۔
جب جنرل مشرف صدر تھے تو یوٹیلٹی سٹور پر سال کے بارہ مہینے سستے ریٹ پر ہم گھی ۔چینی۔دالیں۔اور دوسری اشیا خریدتے تھے۔ پھر ہماری قسمت میں 2009ء سے جمھوریت لکھ دی گئی۔اب تو ہم بہت خوش ہوے کہ اپنا راج آ گیا ہر طرف دودھ اور شھد کی نہریں بہہ نکلیں گی۔ جب مشرف کی حکومت ختم ہوئی تو پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 40 بلین ڈالر سے کم ہو کر 36 بلین ہو چکا تھا۔ ترقی کی رفتار سات فیصد تک پہنچ چکی تھی۔
مشرف حکومت نے IMF کو ایک منظور شدہ قرضے کی قسط شکریے کے ساتھ واپس کی تھی۔ مگر وہ ڈکٹیٹر تھا۔وہ غریب عوام کا خیر خواہ نہیں تھا اس کو نکالنا ضروری تھا ہم نے جمھوریت کی پٹڑی پر چڑھنا تھا ہم چڑھ گئے۔
اگلے دس سال باری باری پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے حکومت کرنی تھی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ تو دو جماعتوں کے درمیان ہوا مگر عوام نے بھی عین اس معاہدے کے مطابق بھاری اکثریت کے ساتھ اس معاھدے کے مطابق ووٹ دیے گویا آج بھی کوئی ایسا معاھدہ طے پا جاے تو پاکستان کے عوام اتنے فرمانبردار ہیں کہ معاھدے سیاستدان کرتے ہیں اور پاسداری عوام کرتے ہیں۔
خیر یوٹیلٹی سٹور کی حالت ان دس سالوں میں بگڑنے لگی اب ہماری جمھوری حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ یوٹیلٹی سٹور پر صرف ماہ رمضان میں سستے نرخ سودا ملے گا باقی مہینے قیمتیں کم نہیں ہونگی۔ اب میرے گاوں کے لوگ رمضان کا انتظار کرتے اور ایک ماہ کا سودا یوٹیلٹی سٹور سے لے کر شادکام ہوتے۔ دس سال گزرنے کے بعد 36بلین ڈالر کے قرضے ایک سو بلین پر پہنچ گیے مہنگائی بڑھ گئی۔
ہماری سڑکیں گلیاں تباہ ہو گئیں مگر بڑے شھروں میں موٹر وے ۔میٹرو اور پتہ نہیں کیا کیا بن گیا۔ PTI حکومت بہت اہم جذبہ لے کر اٹھی ایک تو نام تحریک انصاف یعنی انصاف کا بول بالا ہو گا دوسرا کرپشن ختم کرنے کا نعرہ تیسرا 200 بلین ڈالرز سوئس بنک سے ہماری لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا وعدہ۔
ہم گاوں والوں نے گھر گھر PTI کے جھنڈے گاڑ دیے اورگلی گلی عمران خان کے نعرے وجن لگ گئے۔ایک نعرہ جو ہمارے آنسو بہادیتا وہ تھا ۔۔ہم ملک بچانے نکلے ہیں آو ہمارے ساتھ چلو۔ چنانچہ ہم ملک بچانے کی خاطر تن من دھن لگا کر عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔
۔پی ٹی آئی کی ٹوپیاں اور چادریں اوڑھ کر سایکلوں پر جھنڈے لگا کر گھومنے لگے اور اس وقت تک نہیں بیٹھے جب تک وزارت عظمی کا تاج عمران خان کے سر پر نہیں سج گیا۔ پہلے بجٹ میں چینی صرف پانچ روپے مہنگی ہوئی جو معمولی بات تھی مگر وہ بغیر بجٹ کے مزید پچیس تیس اوپر چلی گئی۔
گندم اور روٹی کا ریٹ معمولی سا اوپر ہوا مگر بے قابو ہونے لگا۔سبزیوں ۔گھی۔ چینی۔ پھل فروٹ۔دوایاں۔گوشت۔کپڑے ۔جوتے ۔مہنگے ہو گئے ڈالر 120 سے 155 پر چلا گیا مگر ہماری حکومت اسے مستحکم کہتی ہے۔
برامدات۔درامدات۔سٹاک ایکسچینج۔مالی خسارہ۔ وغیرہ ایسی باتیں ہیں جن کا تعلق عام آدمی سے نہیں یا وہ امراء کے مفاد کی چیزیں یا ورلڈ بنک اور IMF کے مفاد کی۔آٹا ۔چینی۔پٹرول۔بجلی۔گیس۔ دالیں۔سبزیاں ۔دودھ ۔دوایاں عوام کے استعمال کی چیزیں ہیں جو برابر مہنگی ہو رہی ہیں مگر نہ وزیراعظم ان اشیاء پر بات کرتا ہے نہ مشیر خزانہ۔
ڈیرہ کےترقیاتی منصوبےٹھپ پڑے ہیں ۔یونیورسٹی کے پنشنرز روتے پھرتے ہیں۔تنور بند ہو رہے ہیں گداگر بڑھتے جا رہے ہیں عوام کا پلیتھن نکل گیا ہے مگر آج بھی وزیراعظم کا بیان اعتدال کی ویب سائٹ پر چل رہا ہے کہ پاکستان نے معیشت مضبوط کر لی۔دو دن پہلے مشیر خزانہ نے یہ بات کی۔بس اب تو حبیب جالب یاد آتا ہے۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے۔
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے۔۔
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض۔
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ