گھر سے باہر نکلنے کی دیر ہے آپ کو ہر سگنل پر ہر دوسری دکان پر ہر مارکیٹ میں بھکاریوں کی کبھی نہ ختم ہونے والی تعداد نظر آتی ہے، ایک پل کیلئے تو پورا ملک ہی بھکاری لگنے لگتا۔ اور طریقے ایسے کہ لگتا ہے یہ لوگ بھیک مانگنے کے آئن سٹائن ہیں۔ ایسے میں ایک سے بڑھ کے ایک مسخرے اور نمونے بھی نظر آتے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ڈرامہ بازوں کی وجہ سے معاشرے میں ضرورت مند لوگ بھی نظر انداز ہو جاتے ہیں۔
ایک بار ہوا کچھ یوں کہ لاہور جانے کی غرض سے راولپنڈی ڈائیوو بس ٹرمینل کی انتظار گاہ میں بیٹھا تھا۔ ایسا ہے کہ ڈائیوو بس ٹرمینل پہ تھوڑے سوٹڈ بوٹڈ لوگ آتے۔ ایسی ہی ایک بہترین شخصیت کا حامل کوئی 35سال کا شخص انتظار گاہ میں داخل ہوا، سفید شلوار قمیض پہ بلیو رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا۔ پہلی نظر میں اسکی شخصیت متاثر کن لگی۔
وہ شخص میرے برابر والی سیٹ پر آ بیٹھا۔ خود ہی سلام دعا کی، غیر رسمی گفتگو میں اس نے کہا محترم اگر آپ برا نا منائیں تو آپ سے ایک خاص بات کرنی ہے ، میں نے کہا ضرور، کہنے لگا میں ایک سرکاری ملازم ہوں، مجھے یہاں سے سرگودھا جانا تھا۔ میں آن لائن ٹیکسی سروس کے ذریعے یہاں پہنچا ہوں، جیسے ہی میں ٹکٹ لینے گیا تو پتہ چلا میرا وائلٹ اسی کار میں ہی رہ گیا۔
اس کی شخصیت پرسنیلٹی اور بات کرنے کے انداز سے اس کی کہانی کا گہرا اثر ہوا، میرے اندر کی انسانیت نے بھی کروٹ لی۔ میں نے کہا آپ پریشان نا ہوں۔اور پھر میں نے اسے ٹکٹ کی قیمت سے کچھ زیادہ پیسے دے دیئے ، کہنے لگا آپ نمبر دے دیں میں یہ رقم لوٹا دونگا میں نے اس پہ انکار کیا اور وہ چلا گیا۔
وقت ہے کہ رکتا ہی نہیں ، تیزی سے گزرتا گیا اور ایک سال بعد میں پھر سے اپنے شہر سے واپس آرہا تھا تو گاڑی موٹروے ریسٹ ایریا میں رکی، لان میں رکھی کرسیوں پہ بیٹھا تھا تو میری کرسی کی بالکل پچھلی سیٹ پہ ہماری ہی بس کی ایک سواری بیٹھی تھی۔ کرسی اتنی قریب تھی کہ آواز آ سکتی تھی۔ میرا دھیان اس وقت گیا جب ایک مانوس آواز اور کہانی سنی۔
وہ بالکل وہی الفاظ تھے جو ایک سال پہلے ڈائیوو بس کی انتظار گاہ میں سنے تھے۔ وہ اس شخص سے مدد طلب کر رہا تھا۔ میں مڑ کر دیکھا تو وہی شخص مگر ڈریس تبدیل تھا۔ میں تو ایک پل کیلئے چونک گیا۔اسے اپنی موجودگی کا احساس نہیں ہونے دیا کہ پہچان پائے، میں نے فورا 15پہ کال کی ، پولیس کی گاڑی گشت پہ تھی فورا پہنچی۔ ڈیوٹی آفیسر کے پاس جا کے سارا معاملہ سنایا۔ وہ میرے ساتھ وہاں اس شخص کے پاس آئے ، اور اس سے گورنمنٹ ڈیوٹی کارڈ طلب کیا ، پھر کیا تھا ہوتا تو دیتا نا۔۔
میں نے اسے یاد کروایا کہ بھائی آپ نے کیا کمال ذہانت سے بھیک کا راستہ نکالا ہے، 10یا20نہیں ڈائریکٹ بڑا ہاتھ مارتے ہو۔ پولیس نے میری شکایت پہ اسے گرفتار کیا۔ ایک ہفتے بعد اس ڈیوٹی آفیسر کی کال آئی اور اس نے کہا سر آپ نے اچھا کیا تھا کہ اسے گرفتار کروایا ہے، یہ کام اس شخص کا مشغلہ اور کمائی کا ذریعہ ہے۔ اور ایک انکشاف نے تو رونگٹے کھڑے کر دیئے کہ اس شخص کے نام پر تو اسلام آباد کے پوش ایریا میں ایک بنگلہ ہے جو اس نے اسی لوٹ مار سے بنایا ہے۔اور اس نے بتایا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر 20سے 30ہزار کماتا رہا ہے۔
اب اس کا الزام کس کے سر جائے گا؟ یہ انوکھا فقیر نجانے کتنے مستحق لوگوں کا حق مار رہا تھا۔ اب آپ بھی ایسے لوگوں پہ نظر رکھیں ۔ اپنے پیسے ضائع ہونے سے بچائیں۔ اپکے صدقے خیرات پہ سب سے پہلا حق آپ کے قریبی رشتہ داروں کا ہے جو غریب اور مفلس ہوں اس کے بعد آپ کے پڑوس میں نظر دوڑائیں آپ کو کئی لوگ ایسے ملیں گے جو آپ کی مدد کے منتظر ہونگے۔
تعارف:مظہر ملک گزشتہ ایک دہائی سے شعبہ صحافت اور تدریس سے منسلک ہیں۔اپنی صحافی ذمہ داریوں کے تحت سیاست اور معاشرتی مسائل پہ گہری نظر رکھتے ہیں
Twitter and Facebook: @mazharhoceyn
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ