میں اپنے ایک ڈاکٹر دوست کے تھیسس کے سلسلے میں بہاولپور شھر سے یزمان پہنچا اور پھر چولستان کے کھلے صحرا میں داخل ہو گیا۔ یہ سخت گرمیوں کا موسم تھا جب چولستان کے صحرا کے ٹیلوں سے گرم لُو ٹکراتی ہے اور چولستانی باشندے سارا دن منہ کو لپیٹے ان لُو کے تھپیڑوں کو سہتے مال مویشی چراتے رہتے ہیں۔
ڈیرہ کے ممتاز شاعر غلام محمد قاصر مرحوم نے کہا تھا
؎سرد ہواوں سے تو تھے ساحل کی ریت سے یارانے۔
لُو کے تپھیڑے سہنے والے صحراٶں کے ٹیلے تھے
چولستان صحرا کی زندگی مال مویشی اور اونٹوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ جس طرح ہمارے ڈیرہ کے دامان کے لوگ بارش کا پانی ایک بڑے تالاب میں جمع کر لیتے ہیں اور اسی پر گزارا کرتے ہیں اسی طرح چولستان کے لوگ بارش کے جمع شدہ پانی کے تالاب کے اردگرد بسیرا کر لیتے ہیں۔وہ اس تالاب کو ٹوبہ کہتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ دامانی لوگ جب رودکوہی سیلاب کے پانی سے اپنی زمین کا ٹکڑا سیراب کرتے ہیں تو اسے بندڑا کہتے ہیں کیونکہ یہ زمین بھی چاروں طرف لٹھ بنا کر تالاب کی شکل میں ہوتی ہے۔
چولستانیوں کا یہ مسئلہ ہے کہ جب ٹوبہ خشک ہونے لگتا ہے تو وہ کسی نئے ٹوبے کی تلاش میں ہجرت کر لیتے ہیں اور اس جگہ پڑاو ڈالتے ہیں جہاں قریب پانی مل جائے ۔ چولستان کی زندگی کسی ایک جگہ قیام نہیں کرتی بلکہ صحرا میں گھومتی پھرتی رہتی ہے۔
اسی طرح ہمارے شیر دریا سندھ کے کنارے آباد کیہل لوگ بھی دریا میں جگہ جگہ تمبو اور قلقیاں لگا کر رہتے ہیں۔کیہل برادری پر ایک سرائیکی شاعر عصمت نے کمال کی شاعری کی ہے ۔اس نے جب کیہل سے پوچھا تم اب تبدیل ہو جاو دنیا کہاں پہنچ گئی مگر تم نہیں بدلے تو کیہل نے شاعر کو جو جواب دیا وہ سرائیکی شاعری میں سننے سے تعلق رکھتا ہے ؎
؎ ساکوں حال آپنڑے دے وچ رہنڑ ڈے سئیں ۔توں ایھ گاہل نہ پچھ کہ کیوں نے بدلدے
تیڈے بنگلے کوٹھیاں عداوت توں پُر ہن۔ میڈے پاڑیاں قلقیاں دے وچ پیار پلدے
تیڈے گیٹ تے گاڈ ڈینھ رات ھودن ۔میڈا پندا ہویا نہ کوئی بال گلدے
فجر نال کشکول خالی کوں چینا۔ ولا شامیں کشکول پُر تھی کے ولدے
ساڈا ہر دی تونڑ دے وچ ہے مقدر۔ اساں شہنشاہ در دے پکے گدا ہیں
ساڈا سارا وسبا بھراویں دے وانگوں ۔اساں سارے وسبے دے سکے بھرا ہیں
تہاکو انا ایڈا مغرور کیتے جو بھراواں توں کھاندے ہو روٹی لُکا کے
اساں آپڑیں رسماں دے مخلص ودے ہیں۔ اساں اج وی پندوں محلے ونڈا کے
جے کر اے یقین ہی کہ دنیا ہے فانی۔ ولا کیا کریسیں اے بنگلے بنڑا کے
تو چا کُوڑیاں قسماں روزی کمانیں ۔اساں رزق گھندے ہیں ڈِگڑی وگا کے
ساڈیاں آپڑیاں رسماں ۔ساڈیاں آپڑیاں ریتاں۔اساں زندگی دے جنون اچ ودے ہیں
سچی گال جے کر تو پچھدا ہیں عصمت ۔اساں ڈھیر سارے سکون اچ ودے ہیں
پھر واپس چولستان چلتے ہیں ایک ٹوبہ مکمل خشک ہو چکا تھا تو میں نے چولستانی سے پوچھا یہ کتنے دن میں خشک ہو گیا تو اس نے سورج کی طرف اشارہ کر کے کہا اس ظالم نے جلد خشک کر دیا۔
میں نے کہا سورج تو بہت اچھا ہوتا ہے یہ ہماری دھرتی کو روشن کرتا ہے۔ اس نے کہا سورج ایک نہیں دو ہیں ۔ایک اچھا ایک ظالم۔جو اچھا سورج ہے وہ سردیوں میں نکلتا ہے وہ مہربان سورج ہے جو غصیلا اور ظالم ہے وہ گرمیوں میں نکلتا ہے وہ ہمارے ٹوبے خشک کر دیتا ہے اور ہم کوچ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
میرے ساتھ آئے ڈاکٹر نے اپنی ریسرچ کے سوال پوچھے اور میں دو سورج میں کھویا رہا۔میری سوچ کا گھوڑا بے لگام ہو گیا اور پاکستان کے ماضی میں بگٹٹ دوڑنے لگا ۔
مجھے ملک کا پارلیمانی اور صدارتی نظام دو سورج کی طرح لگنے لگا ۔ مجھے صدر ایوب ۔نواب کالا باغ ۔ اس وقت کی زرعی و صنعتی ترقی یاد آنے لگی ۔پھر پارلیمانی نظام کا ظلم و ستم دماغ میں گھومنے لگا۔
پھر یاد آیا پارلیمانی نظام پر سیاسی پارٹیوں کا کنٹرول نہیں بلکہ سیاسی خاندانوں کا سکہ چلتا ہے۔پانچ سو سیاسی خاندان جس سیاسی پارٹی کو سہارا دے دیں وہی پارٹی پارلیمان میں آ جاتی ہے اور وہی سیاسی خاندان بار بار حکومت کرنے لگتے ہیں۔
اگر ان خاندانوں کو حکومت نہ ملے تو دنگا۔فساد۔بدامنی۔مہنگائی۔کرپشن۔نا انصافی پاکستان کا مقدر بنتی ہے اگر وہ حکومت میں ہوں تو بڑے لمبے ہاتھ مار کر ملک کو مقروض اور قلاش کر دیتے ہیں ۔
حکومت میں نہ ہوں تو عوام کے خون پسینے سے لوٹے گئے پیسے سے بنائے ہوئے باہر کے محلات میں چلے جاتے ہیں۔۔
پاکستان کے غریب عوام کتنے بے کس و لاچار ہیں یہ آپ خود سوچیں! کیا یہ نظام اس چولستانی کے بتائے گئے ان دو سورج کی طرح نہیں ہے؟
ایک ظالم پارلیمانی نظام جو ایک پیراسائیٹ کی طرح غریبوں کی رگوں سے خون چوس رہا ہے دوسرا ماضی کا صدارتی نظام جو سیاستدانوں اور سیاسی خاندانوں کے خلاف اور غریب پر مہربان تھا جس میں آٹا چینی گھی سستا تھا جس میں IMF کا کوئی کردار نہ تھا جس میں ہماری نسلیں مقروض نہیں تھیں جبکہ آجکل ہم پر ظالم اور نامہرباں نظام مسلط ہے جو سیلز ٹیکس۔ IPP۔ غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر برآمدات بڑھانے کی بات کرتا ہے تاکہ امیر ممالک ہمارا مال سستا خریدیں اور عیش کریں۔
پرانے نظام میں IPP نہیں تھے بلکہ اپنے ڈیم تھے جو بیالیس روپے کی بجائے ایک پیسہ یونٹ بجلی دیتے تھے جس میں ڈالر 155 روپے کی بجائے 3 روپے کا تھا جس میں کرپشن تھی تو چھپ کر تھی کرپشن اور رشوت کا جمعہ بازار نہیں لگتا تھا جس میں قاتل پھانسی پاتے تھے قانون سب کے لیے برابر تھا جس میں غریبوں اور امیروں کی علیحدہ کالونیاں اور سکول کالج نہیں تھیں۔جس میں امن تھا سکون تھا۔ہمارے سر پر آج ظالم سورج چمک رہا ہے اور مہربان سورج غروب ہو چکا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ