اگر کسی نے راجنیتی فلم دیکھی ہو تو اس میں نصیر الدین شاہ کا ایک ڈائلاگ ہے
"یہ بھوک کی ماری جنتا ہے صاحب دو روٹی کا سہارا دے دو کسی کا بھی جھنڈا اٹھا لے گی”
جب ریاست نے اپنی حکمرانی کو بے ایمانی کی بنیاد پر طول دینا ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے انسان سے انسان ہونے کا شرف چھینتی ہے اور وہ شرف انسان کو بھوکا ننگا کر کے چھینا جاتا ہے سوچنے کی صلاحیت سلب ہوجاتی ہے اور اپنا حق بھی احسان بن جاتا ہے….یہ تو ان بھوکے ننگوں کی کہانی ہے جو الگ بحث ہے.
لیکن اس کے علاوہ ایک اور بات بھی ہے اور وہ یہ کہ خود کو زیادہ سیانا سمجھنا بھی بد ہضمی کا سبب بنتا ہے.. اور ہمارے ہاں ایسے سیانے طبقات ان بے شعور لوگوں سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں…
جو بات اب لکھی جا رہی ہے یہ بات دس بیس دن پہلے بھی لکھی جا سکتی تھی پر ہمارے بہت سے دانشوروں کو سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے والے پسند ہیں… اور وہ خود بھی یہی کرتے ہیں…یہ بات سانپ گزرنے کے وقت لکھی جاتی تو شاید کسی کو سمجھ نہ آتا….
کل جب کہا گیا تھا کہ نواز شریف ایک انقلابی آدمی نہی ہے اور نہ ہی انقلابی نظریہ رکھنے والی جماعت کا لیڈر ہے تو سب ہنس رہے تھے… اس سے پہلے جب عرض کی تھی کہ عمران خان سبز باغ دکھا کر حکومت تو حاصل کر سکتا ہے مگر وہ ایک وزیر اعظم کے فرائض آزادانہ سر انجام نہی دے سکے گا وہ ایک کٹھ پتلی ہوگا تب بھی سب نے تمسخر اڑایا…. جب فضل الرحمن صاحب کے دھرنے کی بات ہوئ تو تب بھی یہ عرض کی تھی کہ شطرنج کی بساط کے دونوں طرف مہرنے ہلانے والا ایک ہی کھلاڑی ہے…. مگر ہم جلد باز نفسیات کے عادی اپنے مسائل کا مستقل حل ڈھونڈنے جیسی مسلسل ان تھک جدو جہد کرنے سے ڈرنے والے شعوری سست روی اور کاہلی کا شکار لوگ دور سے بجتے ڈھول کی تھاپ سن کر رقص شروع کر دیتے ہیں…. اور اس تھاپ پار اس بار پراگریسو سوچ رکھنے والے بھی اسی طرح ناچے ہیں جیسے عمران خان کے تبدیلی ڈرامے پر ناچ رہے تھے…..
کسی عام ذہنیت کے انسان سے یہ توقع کرنا کہ وہ مولانا سے انقلاب کی امید لگائے سمجھ آتا ہے پر ایک لبرل پراگریسو ذہن کا کلیم کرنے والے انسان ایسی حماقت کریں یہ دیکھ کر کلیجہ منہ کو آجاتا ہے….
دھرنے کے اختتام پر پلان بی کی نئ بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے تا کہ ردھم بر قرار رہے… مگر یہ جو کریں گے غلط کریں گے…..
ایسٹبلشمنٹ کی نفرت کے باعث مذہبی بنیاد پرستی کو سپورٹ کرنا اپنی قبر کو اور گہرا کرنے کے مترادف ہے…. یہ سب کچھ اسی جلد باز اور جلدی جلدی سب ٹھیک کر کے موج کرنے والی سوچ کا نتیجہ ہے جو ہماری قوم میں بشمول لبرل پراگریسو حضرات موجود ہے جو انقلاب کے حقیقی نظریات اس کی اساس اور جدلیاتی پہلو سے بالکل نا آشنا ہیں…. ہم کہکشاوں سیاروں سیارچوں بلیک ہول ایوولیشن پر پوسٹس کرتے اپنا علم جھاڑتے نہی تھکتے پر افسوس ہے کہ سماج چلانے اور اس کو بدلنے جیسی عظیم سائنس کو وقت تک نہی دیتے….
یہ دھرنے یہ جلسے یہ جلوس یہ حکومت کی آنیاں جانیاں چالاکیاں چترائیاں صرف اس لیے ہوتی ہیں کہ ہر ایک فریق کو اس کی ڈومین میں رکھا جا سکے…. حکومت کو میسج دینا ہوتا ہے کہ اوقات میں رہو ورنہ دھرنے کبھی بھی ہو سکتے ہیں… دھرنے والوں کو میسج دینا ہوتا ہے کہ جب ہم کہیں بوریا بستر اٹھا لینا ورنہ ہمارا ووٹ کبھی بھی حکومت کے حق میں جا سکتا ہے… اور پھر مقتدرہ کی اپنی اندرونی دھڑے بازی بھی اپنے اپنے حصے کی لڑائ کے لیے یہ سب مہم جوئیاں کرواتی رہتی ہے… سامنے مطالبات کچھ اور ہوتے ہیں پس پردہ مطالبات کی لسٹ کچھ اور ہوتی ہے….. جب مک مکا ہو جائے تو ہجوم کا بوریا بستر گول کر کے خود گھروگھری جا کر عیش کوٹا جاتا ہے…..
نہ مولانا نہ نواز شریف نہ عمران خان نہ کوئ فوجی ڈکٹیٹر حتی کہ کوئ فرشتہ بھی اس نظام کی غلاظت میں لتھڑے بنا نہی رہ سکتا اور نہ کوئ عوامی حکومت آ سکتی ہے…. اصل لڑائ پارٹی اور چہروں کی نہی ہے اصل لڑائ طبقات کی ہے… حاکم اور محکوم کی ہے ظالم مظلوم کی ہے سٹیٹس کو کی ہے بنیاد پرستی کی ہے اور یہ لڑائ روایتی حربوں روایتی لوگوں روایتی نعروں اور جلد بازی کی نفسیات سے نہی جیتی جا سکتی…..
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں پیرس کمیون سے لے کر تحریر چوک تک جب بھی کوئ عوام کا ریلا اپنی شعوری جڑت سے آگے بڑھا ہے تب ہی جا کر کوئ بڑی تبدیلیاں آئ ہیں… تحریکیں یا دھرنے لیڈرز کے پیچھے یا لیڈرز کی وجہ سے نہی ہوتے بلکہ سچی تحریکوں اور دھرنوں میں خود اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے اندر سے لیڈرز کو جنم دے دیتی ہیں… سچی تحریکوں اور دھرنوں کو ایسے شعبدہ بازوں کی ضرورت نہی ہوتی…..
اور یہ شعبدہ بازیاں ان سچی تحریکوں کو ضائع کرنے عوام کو گمراہ کر کے اس نظام کو بچانے کے لیے کی جاتی ہیں….
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر