جون 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مسائل کا حکمرانہ حل ، دانش کی مفلسی۔۔۔ رؤف لُنڈ

یہی وجہ ھے ظلم ، جبر، تشدد، بھوک، مہنگائی، لا علمی اور لا علاجی کی اذیتیوں اور ذلتوں کو سہہ کر بھی وہ سوچنے سے باز نہیں آتے

مسائل کا حکمرانہ حل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دانش کی مفلسی ۔۔۔۔ مگر حتمی شکست حکمرانوں اور حکمران طبقے کا نصیب ٹھہر چکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک مارکسی کہاوت ھے کہ جو طبقہ حکمران ہوتا ھے خیالات بھی اسی کے حکمران ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ھم چونکہ نظامِ زر کی خباثت کی چھتر چھایا میں پنپنے والے طبقاتی سماج میں رہ رھے ہیں اس لئے عقل و دانش کے بڑے بڑے عالم، جغادری مسائل کے حل کی وھی تجاویز دیتے ہیں جن سے نہ مسئلے حل ہوتے ہیں اور نہ ھی اس نظام کے گماشتوں کی کسی لوٹ مار میں کوئی فرق پڑتا ھے۔۔۔۔۔۔ جیسے ٹماٹر مہنگے ہیں تو لینا چھوڑ دیں یا دھی استعمال کریں۔ سبزی مہنگی ھے تو سیب کھائیں یا سبزی لینا چھوڑ دیں۔ موبائیل لوڈ پہ ٹیکس لگ رہا ھے تو لوڈ نہ کرائیں۔ بجلی مہنگی ھے تو شمسی پلیٹس خریدیں یا بجلی کا استعمال ھی چھوڑ دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرح مہنگائی و گرانی کی وجہ سے بھوکا روٹی کھانا چھوڑ دے، غریب ٹرانسپورٹ کے کرایوں کی وجہ سے سفر کرناچھوڑ دے، کرائے کا گھر خالی کر کے فٹ پاتھ پہ آ جائے، کتابیں اور فیسیں نہ ہونیکی وجہ سے تعلیمی اداروں کو خیرباد کہہ دے، بیمار ھو تو ہسپتال نہ جائے اور آبادی کی شرح میں اضافہ ھو رہا تو ذاتی اور مذھبی فسادات برپا کرنے کے نتیجہ میں آبادی میں کمی کر لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر جو ایسا نہ کریں ان کو اپنی دانش کی مفلسی کے ہاتھوں لعن طعن کرنا اور ان کے شعور کو کوسنا شروع کردیا جائے۔۔۔۔۔۔ یہاں وطنِ عزیز میں ووٹوں کے ناٹک سے اسمبلیوں میں جانے والوں کی بے اعتنائی کا بدلہ لینے کیلئے آئندہ کسی کو ووٹ نہ دینے کے بھاشن دئیے جاتے ہیں۔(بلوچستان میں تو ایک تجربہ بھی ھوا کہ وہاں جو پچھلا وزیراعلیٰ تھا اس کے نامہِ اعمال میں صرف چار سو ووٹ پڑے اور رہنمائی کیلئے پورے بلوچستان کی تقدیر لکھ دی گئی تھی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذہنی افلاس کا شکار ایسے دانشور آخری تجزیہ میں طبقاتی نظامِ زر کے گماشتوں اور ان گماشتوں کے گماشتوں کے تلوے چاٹنے والے ھوتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے یا تو لوٹ مار اور استحصال کرنے والوں کی دلالی کر کے اپنے گھروں کے کونے کھدروں، شہر کی دکانوں یا بینکوں کے کھاتوں میں پس انداز کر کے(بچا کے) رکھا ھوتا ھے یا کچھ نہ کچھ کے حصول میں سرگرداں ھوتے ہیں یا پھر بالادست طبقے کی درسی ، اخلاقی اور تاریخی کتابیں رٹ رٹ کے کرانک(پیچیدہ اور نا قابلِ علاج) مریض بن چکے ھوتے ہیں۔۔۔

مگر دوسری طرف عوام ہیں کہ جو الٹی کھوپڑی کی دولت سے مالا مال ھوتے ہیں۔ یہی وجہ کہ دانش کی مفلسی کے تمام مریضوں/دانشوروں کی باتیں غریب عوام اور محروم محنت کش طبقے کی سماعتوں سے ٹکراتی تو رہتی ہیں مگر ان کی کھوپڑی میں گُھس نہیں پاتیں۔غریب ، مظلوم، محروم محنت کش کچھ بھی بے حس اور بے غیرت نہیں ہوتے۔۔۔۔

یہی وجہ ھے ظلم ، جبر، تشدد، بھوک، مہنگائی، لا علمی اور لا علاجی کی اذیتیوں اور ذلتوں کو سہہ کر بھی وہ سوچنے سے باز نہیں آتے۔ بس پھر نسلِ انسانی کی ساری تاریخ گواہ ھے کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ھے کہ جب ان کی سوچوں کو آنکھیں مل جاتی ہیں، اپنے دشمن کی پہچان کا ادراک مل جاتا ھے تو سب سے پہلے وہ حکمران طبقے کے مفاد میں باتیں کرنیوالوں کی تمام دانش کو اپنی حقارت کا نشانہ بناتے ہیں۔ اور بالآخر کھیتوں کھلیانوں اور فیکٹریوں کارخانوں میں منظم طبقاتی لڑائی لڑتے ہوئے حکمرانوں کے تخت اور تاج کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تب طبقاتی سماج مٹ کر ایک ایسا سرخ سویرا/سوشلسٹ سماج جنم لیتا ھے کہ جس میں نسلِ انسانی کی قطعی اکثریت اپنا مقدر اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: