آج صبح میری ملاقات امان الحق غزنی خیل صاحب سے ہوئی اور چونکہ وہ کمپرہینسیو ہائی سکول ڈیرہ میں پڑھتے رہے ہیں تو پھر بات اس سکول کے سابق پرنسپل مرحوم کفایت اللہ خان تک جا پہنچی کیونکہ تعلیم کے فروغ میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
امان الحق سے ملنے کے بعد مجھے کفایت اللہ خان اور جامع سکول کی تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق معلومات کے لیے ماہر تعلیم ریاض انجم صاحب سے بھکر فون پر رابطہ کرنا پڑا کیونکہ ڈیرہ میں تعلیم سے متعلق ہو یا ڈیرہ کی تاریخ سے متعلق وہ ہماری معلومات کا انسائیکلوپیڈیا ہیں اور مجھے کئی موضوعات کی تفصیل کے لیے بار بار ان سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔
ریاض انجم صاحب نے بتایا کہ جامع سکول 1968ء میں اسلامیہ سکول کے ناصر علی شاہ ہاسٹل میں قائم کیا گیا کیونکہ اس کی عمارت ابھی نہیں بنی تھیں۔ ناصر علی شاہ ہاسٹل میں آجکل لڑکوں کا ڈگری کالج نمبر دو بنا ہوا ہے۔
جامع سکول کے پہلے پرنسپل کریم خان تھے۔ اگلے دو سال میں یہ سکول اپنی عمارت میں شفٹ ہوا جو اب وینسم سکول و کالج کہلاتا ہے۔ اپریل 1969ء میں کفایت اللہ خان کو یہاں پرنسپل تعینات کیا گیا۔
کفایت اللہ خان کا تعلق بنوں سے تھا اور وہ یہاں آنے سے قبل لاچی کے سکول میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں ایک ڈیووٹڈ ماہر تعلیم تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی علم کے فروغ کے لیے وقف کر رکھی تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1969ء میں اپنی پوسٹنگ کے بعد جو پہلا میٹرک کا امتحان ہوا اس امتحان میں جامع ہائی سکول کے ایک طالب علم عبدالکریم نے پورے صوبے میں اول پوزیشن حاصل کی۔
یہ لڑکا بعد میں ڈاکٹر بنا اور پھر تو اس سکول کے 80% لڑکے ڈاکٹر بننے لگے۔اس زمانے میں اس سکول میں چار پانچ ہیڈماسٹر لیول کے سینئر اساتذہ خدمات سرانجام دے رہے تھے جن میں سیف اللہ خان سیال ۔ امان اللہ رانازئی ۔یوسف بھٹی ۔بلال خوجہ اور فیض الرحمان شامل تھے۔
کفایت اللہ صاحب بہت دبنگ پرنسپل تھے اور ہمیشہ لائق اساتذہ کی قدر کرتے تھے۔ محکمہ تعلیم کے سینیر حکام کفایت اللہ خان کی اجازت کے بغیر نہ جامع سکول ڈیرہ سے کسی ٹیچر کو باہر تبدیل کرتے اور نہ ان کی اجازت کے بغیر اس سکول بھیجتے۔
اس وقت اس سکول میں ٹیکنیکل کام وڈورک اور الیکٹریشن کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔ سکول میں غیر نصابی سرگرمیوں بمعہ سپورٹس پر بھی زور دیا جاتا تھا۔
اس وقت اس سکول میں ایک ڈرامیٹک کلب بھی بنائی گئی جس کے ڈائرکٹر ریاض انجم صاحب تھے ۔ سکول میں کئی سٹیج ڈرامے ہوئے اور ایک ڈرامہ تو سابق وزیراعلی عنایت اللہ خان گنڈہ پور مرحوم کے سامنے پیش کیا گیا جو انہوں نے بہت پسند کیا۔
کفایت اللہ خان طلبا میں انتظامی صلاحتیں اجاگر کرنے کے لیے ایک دن سکول کا پورا نظام طلباء کے حوالے کر دیتے۔ جامع ہائی سکول 1980ء میں گومل یونیورسٹی کے حوالے کیا گیا جب یونیورسٹی کے وائس چانسلر عبدالعلی خان تھے۔
اس طرح جامع سکول سے اس کو وینسم سکول و کالج بنایا گیا اور جامع سکول کی اپنی پہچان ختم ہوگئی۔ امان الحق غزنی خیل نے بھی دلچسپ قصہ سنایا ۔
انہوں نے کہا جب وہ اس سکول پڑھتے تھے تو پرنسپل کفایت اللہ ہر ہفتے سکول کے تین سب سے صفائی پسند بچوں اور تین میلے ترین کپڑے پہننے والے بچوں کا انتخاب کرتے ۔
صفائی میں اول آنے والے بچے کو ڈیڑھ روپے دوم کو سوا روپے اور سوم کو ایک روپیہ انعام ملتا۔ میلے کپڑوں والے اول نمبر بچے کو تین ڈنڈے دوم کو دو ڈنڈے اور سوم کو ایک ڈنڈا سزا ملتی۔
سکول میں تعلیم کا شوق بیدار کرنے ۔نظم و ضبط قایم کرنے اور کیریکٹر کی تعمیر میں کفایت اللہ خان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اللہ مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
اس کے ساتھ یہ بھی بات قابل غور ہے کہ کمپری ہینسیو سکولوں کا ملک میں جال صدر ایوب خان نے بچھایا جن میں بہت سے آج بھی کام کر رہے ہیں۔
پالی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ اور ڈیرہ کا ہوائی اڈہ بھی صدر ایوب نے بنوایا جس کے لیے وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ بعد والوں نے ہمارے ڈیرہ کے ساتھ کیا کیا وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ