سرینگر:مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ساتھ ہی تنظیم نو قانون 2019 کے اطلاق کے بعد سرکاری زبان ‘اردو’ بحیثیت سرکاری زبان اپنا تشخص کھو سکتی ہے۔
تنظیم نو قانون 2019 میں حکومت نے واضح طور کہا ہے کہ جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری میں منتخب ہونے والی قانون ساز اسمبلی کے پاس اردو کی سرکاری زبان کی حیثیت سے تبدیل کرنے کے اختیارات ہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس قانون کی دفعہ 27 (1) کے مطابق قانون ساز اسمبلی ایک یا ایک سے زیادہ زبانوں، جو یونین ٹیریٹری میں لاگو ہیں، یا ہندی کو بطور سرکاری زبان استعمال میں لا سکتی ہے۔
ایک مقامی انگریزی روزنامے نے سابق گورنر ستیہ پال ملک کے مشیر فاروق خان کے حوالے سے کہا ہے کہ ہندی قومی زبان ہے جس کا استعمال جموں کشمیر یونین ٹیر یٹری میں بھی کیا جائے گا۔
اردو کو اس کی معقول جگہ دی جائے گی۔ انگریزی کا بھی استعمال کیا جائے گا۔تنظیم نو قانون کی شِق اور فاروق خان کے بیان سے کشمیر ی عوام میں خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ مرکزی سرکار جموں و کشمیر کی سرکاری زبان اردو کو ہمیشہ کیلئے دفن کردے گی۔
اردو زبان و ادب کے ماہر پاکستانی صحافی کا کہنا ہے کہ اردو صدیوں سے سابق ریاست کے تینوں خطوں میں مختلف زبانیں بولنے والے باشندوں کے درمیان ایک پل کے علاوہ تینوں خطوں کی عوام کے لیے رابطے کی زبان ہے۔
ساؤتھ ایشین وائر کے ساتھ بات کرتے ہوئے کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق پروفیسر محمد زماں آزردہ نے کہا کہ اردو کشمیر کی پہچان، تہذیب اور شناخت ہے۔
انکا کہنا ہے کہ اگر سرکار اردو کی جگہ کوئی دوسری متبادل زبان جموں و کشمیر میں سرکاری زبان کے طور پر لاگو کرے گی تو یہ ایک انسان کو اس کی روح سے منقظع کرنے کے مترادف ہوگا۔
تجزیہ نگار گوہر گیلانی نے ساؤتھ ایشین وائر کو بتایا کہ اردو زبان کو تبدیل کرنا کشمیر کی تہذیب پر یلغار ہوگا۔
انکا کہنا ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی حکومت پورے بھارت میں ہندی کو عوام پر تھوپنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اردو ادب اور صحافت کے میدان میں بڑی شخصیات پیدا ہوئی ہیں جنہوں نے اردو نثر و نظم میں اپنا لوہا منوایا ہے۔
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
حکایت :مولوی لطف علی۔۔۔||رفعت عباس
حکایت: رِگ ویدوں باہر۔۔۔||رفعت عباس