زندگی کے بارے میں حضرت انسان بہت تلون مزاج واقع ہوا ہے۔ کبھی تو اسے یہ زندگی اتنی عزیز ہوتی ہے کہ اس کے فانی ہونے کی حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے بھی وہ اسے زیادہ سے زیادہ پر لطف انداز میں گزارنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے ،بلکہ بسا اوقات وہ مرتبہ انسانیت سے بھی گرجاتاہے اور کبھی وہ اس سے اتنا بے زار اور دل برداشتہ ہو جاتاہے کہ خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے میں بھی اسے تامل نہیں ہوتا۔
انسانی مزاج کے اس تلون کا اثر یوں تو ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگوں میں پایا جاتاہے لیکن نوجوان نسل میں اس کا کچھ زیادہ ہی اثردیکھنے میں آتاہے۔ خود کشی خود کو ہلاک کرنا یا جان بوجھ کر کسی مشکل سے تنگ آکر اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنے کا نام ہے۔اسلام میں خودکشی قطعا حرام ہے۔اسلام امن و سلامتی والا مذہب ہے جو بنی نوع انسان سے ہر گھڑی صبر و تحمل،اعتدال ا ور توازن پر قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔ اسلام جسم و جان کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے معاشرے کے تمام افراد کو اس امر کا پابند کرتا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ انسانی جان و مال کی حرمت اللہ رب العزت کے پاس کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی خودکشیوں کے بارے مسلسل خبروں نے جہاں افسردہ کیا، وہاں دل و دماغ کو جھنجوڑا بھی اور اس بارے لکھنے پر مجبور کیا۔
ایک طرف نت نئی ٹیکنالوجی اور جدید سہولیات، دوسری طرف انسانی مسائل میں اضافہ۔ ذہنی امراض اور خودکشی کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ اب ورچوئل دنیا کا دور ہے، جس میں رابطے تیز ہیں، منٹوں میں کوئی بھی بات ایک خاندان سے نکل کر پوری دنیا تک پھیل جاتی ہے۔ لہذا اب خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ذہنی تناو کے بڑھتے ہوئے مسائل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ اپنے مسائل شرمندگی کے باعث چھپاتے ہیں، دوستوں یا عزیزو اقارب تک سے شیئر نہیں کرتے جب کہ ان کی مشکلات شیئر کرنے سے کم ہو سکتی ہیں۔ اب نوجوان نسل ذہنی تناو سے بچاو کے لیے منشیات کا استعمال بھی کررہے ہیں۔ گھریلو ناچاقیاں، معاشرتی ناہمواری،خوداعتمادی کا فقدان،عشق و محبت میں ناکامی، جنسی و امتیازی سلوک،عدم مساوات،بھوک افلاس، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، بیماری، مایوسیاں، روزمرہ کی پریشانیاں ، تشدد، زہنی انتشار یہ ہمارے معاشرے کے وہ تمام عناصر ہیں جو زہنی الجھنوں کا سبب بن رہے ہیں۔ زیادہ تر خودکشی کرنے والے نوجوان ذہنی امراض کا شکار ہوتے ہیں۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ تمام بیماریوں میں ذہنی امراض کی شرح سب سے زیادہ ہے، جب کہ دن بہ دن اس کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس میں مبتلا ہونے والے افراد کی بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو ممکنہ طور پر نسلِ نو تباہی کے گور کِنارے پر ہوگی۔ ماہرینِ ذہنی امراض کے مطابق، ماضی کے مقابلے اب ذہنی صحت کو زیادہ خطرات لاحق ہیں، کیوں کہ اس تیز رفتار دور میں زندگی کی رفتار بھی بہت تیز ہوگئی ہے۔ اب لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں ہے، جو شخص بدلتے دور کے ساتھ خود کو تبدیل نہیں کرتا اس کے لیے زندگی انتہائی مشکل ہو جاتی ہے۔ اعصابی تناو کی ایک وجہ گھر کا ماحول بھی ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں اور بچوں میں ذہنی تناو بڑھ رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ، گھریلو ناچاقیاں یا گھریلو جھگڑے زیادہ اذیت ناک ہوتے ہیں تو غلط نہ ہوگا، کیوں کہ ان کے باعث ذہنی تناو کے خطرات لاحق ہوتے ہیں، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ، افراد خانہ کو لڑائی کے بعد ایک ہی جگہ رہنا ہوتا ہے اور صلح سے پہلے تک کے دورانیہ میں ایک دوسرے کو نظر انداز کرنا، خاموشی یا اس طرح کا کوئی اور عمل ذہنی دباو کا باعث بنتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق، صحت مند وہ ہے جو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی تندرست ہو۔ ہمارے ہاں جسمانی صحت کا خیال تو رکھا جاتا ہے مگر ذہنی صحت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی، کیونکہ انہیں اس بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ خود کشی میں تیزی سے ہونے والا اضافہ اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ یہاں ذہنی امراض میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے نوجوانوں میں زہنی تنا، منفی خیالات اور رجحانات کا نمو پانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یقینا ہمارے گھروں، تعلیمی اور سماجی نظام میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ کوئی ایسی بات یا فکر ہے جو ہماری نوجوان نسل کو خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور کر رہی ہے۔ خودکشی کی خبروں خاص طور پر نوجوان نسل کی جانوں کے اتلاف کی خبریں ذہن دل کو آئے دن ملول کر رہی ہیں۔ نوجوان نسل ہمارے ملک کا بیش قیمت اثاثہ ہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کے کردار کو ہر گز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
نوجوان نسل کو اس ذہنی تنا ، ذہنی امراض، مسائل سے نکالنے اور نسلِ نو کو مضبوط بنانے کے لئے والدین، اساتذہ اور معاشرے کے بزرگوں اور خاص کو حکومت کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو بچوں کو زندگی کے نشیب و فراز،سرد و گرم، تلخ و ترش حالات کا علم فراہم کریں۔ بچوں کو مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور انہیں حل کرنے کا ہنر سکھائیں۔ بچوں پر کسی بھی طرح کا دبا ڈالنے کے بجائے ان میں امید ،حوصلہ اور ہمت کو جاگزیں کریں۔ والدین اور اساتذہ بچوں کے مسائل اور ان کی ذہنی حالت کا صحیح ادراک کریں۔ان کے ذہنوں میں محنت اور جستجو کی اہمیت کو اجاگر کریں، نئی نسل کی قرآن و سنت کی روشنی میں تعلیم و تربیت اور ذہن سازی کریں۔
خاص کر نوجوانوں کی قیمتی جانوں کے اتلاف سے بچنے کے لئے تعلیمی اداروں کو کارکرد اور فعال بنانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ شعوربیداری اور ذہن سازی نوجوان نسل میں پھیلانا اور اجاگر کرنا، امیدی حرماں نصیبی اور اضطرابی کیفیت کو ختم کرتے ہوئے انھیں ترقیوں کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت جس سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ کپڑے اور مکان کے بغیر تو انسان زندہ رہ سکتا ہے ، مگر محبت، عزت اور روٹی کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں ۔ خصوصا ہر انسان کو اپنی ہر قسم کی عزت ِ نفس سب سے عزیز ہوتی ہوتی خصوصا نوجوانوں کو۔ خاص کر ہر قسم کے ذہنی امراض سے بچنے کے لیئے ہمیں اپنے گھریلو ماحول کو خوشگوار رکھنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں مایوسی سے دور رہتے ہوئے درپیش مسائل کے مثبت حل ڈھونڈنے چاہئیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ