دسمبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فارن فنڈنگ کیس سے راہ فرار؟۔۔۔ارشد وحید چوہدری

اکبر ایس بابر کو سنگین نتائج کی دھمکیاں تک دی جا چکی ہیں لیکن آفرین ہے تحریک انصاف کے اس بانی رہنما پہ کہ اس نے ہار مانی

پاکستان تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ کا کیس الیکشن کمیشن کے پاس پانچ سال سے التوا میں پڑا ہوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے پہلی بار 14نومبر 2014کو پارٹی کے مرکزی نائب صدر اور سیکرٹری اطلاعات کے عہدوں پہ فائز رہنے والے سابق رہنما اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن کے سامنے دائر کی تھی۔

اس پٹیشن میں انہوں نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور دیگر عہدیداران پہ بھارت اور اسرائیل سمیت بیرون ممالک سے ہنڈی اور دیگر مشکوک ذرائع سے فنڈز وصول کرنے اور منی لانڈرنگ سمیت بدعنوانی میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات عائد کیے۔

اس پٹیشن کے ساتھ انہوں نے مختلف ممالک سے وصول کئے گئے فنڈز کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم کرتے ہوئے پولیٹکل پارٹیز آرڈرز 2202اور الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017کے تحت کارروائی کرنے کی استدعا بھی کی لیکن پانچ سال گزر جانے کے باوجود اکبر ایس بابر الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے درمیان انصاف کے حصول کے لیے جوتے چٹخاتے پھر رہے ہیں کیونکہ تحریک انصاف کی قیادت ہر فورم پہ پارٹی فنڈز کی تفصیلات فراہم کرنے سے نہ صرف انکاری ہے بلکہ حیلے بہانوں سے نظام انصاف میں پائی جانیوالی خامیوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کیس کو مسلسل لٹکائے جا رہی ہے۔

اکبر ایس بابر کو سنگین نتائج کی دھمکیاں تک دی جا چکی ہیں لیکن آفرین ہے تحریک انصاف کے اس بانی رہنما پہ کہ اس نے ہار مانی اور نہ ہی ہمت ہاری بلکہ اپنی ہر ممکن کوشش سے امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ، ڈنمارک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، بحرین میں پارٹی فنڈز کے نام پہ ہنڈی یا دیگر غیر قانونی ذرائع سے وصول کی گئی رقوم کی مالیت اور طریقۂ کار بارے تمام تر تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم کیں جو آج تک تحریک انصاف چھپاتی رہی۔

الیکشن کمیشن نے اپریل 2015میں ابتدائی سماعت میں قرار دیا تھا کہ تحریک انصاف نے اپنی سالانہ آڈٹ رپورٹس میں پارٹی فنڈز کے ذرائع اور تفصیلات کا ذکر نہیں کیا جو قانونی تقاضا ہے۔

تحریک انصاف نے پارٹی اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کرنے کا الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار بھی کئی بار چیلنج کیا، نومبر 2015میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس حوالے سے ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی جس کی سماعت کے باعث ڈیڑھ سال تک الیکشن کمیشن کی کارروائی رکی رہی، فروری 2017میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پارٹی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کو الیکشن کمیشن کا اختیار قرار دیتے ہوئے معاملہ دوبارہ اس کے پاس بھجوا دیا۔

اس دوران تحریک انصاف نے اکبر ایس بابر کی پارٹی رکنیت ختم کرنے کو جواز بنا کر دوبارہ پٹیشن کو ناقابل سماعت قرار دینے کے لیے چیلنج کیا تاہم الیکشن کمیشن نے اس کا مؤقف مسترد کرتے ہوئے کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا جس کے خلاف ایک بار پھر تحریک انصاف نے عدالت عالیہ سے رجوع کر لیا۔ پانچ سال میں مجموعی طور پہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے پارٹی اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کرنے اور اکبر ایس بابر کی پارٹی رکنیت کے حوالے سے پانچ بار رٹ پٹیشنز دائر کی گئیں۔ ایک پٹیشن میں تحریک انصاف نے پارٹی فندز کی اسکروٹنی کو ان کیمرا کرنے کی استدعا بھی کی۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ 26نومبر 2015کو ایک رٹ پٹیشن میں عمران خان نے بیان حلفی دیا کہ وہ پارٹی اکاؤنٹس کی اسکروٹنی کے حوالے سے عام شہریوں کو جوابدہ نہیں ہیں تاہم عدالت عالیہ نے تحریک انصاف کی تمام پٹیشنز پہ فیصلے صادر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو پارٹی فنڈز کی جانچ کا مجاز قرار دیا۔

نومبر 2014سے اب تک الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو 24تحریری احکامات جاری کئے جن میں پاکستان اور بیرون ممالک پارٹی کے اکاؤنٹس کی تفصیلات اور بینک اسٹیٹمنٹ جمع کرانے کی ہدایات دی گئیں لیکن تحریک انصاف نے آج تک ان پہ عمل درآمد نہیں کیا۔

بالآخر مارچ 2018میں الیکشن کمیشن نے ڈی جی لا کی سربراہی میں تین رکنی اسکروٹنی کمیٹی قائم کر دی تاہم جولائی 2018تک اسکروٹنی کمیٹی کے بارہ سے زائد اجلاس منعقد ہوئے لیکن تحریک انصاف نے بار بار طلبی کے باوجود پارٹی فنڈز اور اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ اسکروٹنی کمیٹی نے 3جولائی 2018کو اسٹیٹ بینک کو سال 2009سے 2013کے دوران تحریک انصاف کا فنانشل ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایات دیں اور جیسے ہی اسٹیٹ بینک کی تفصیلات سامنے آئیں کہ ابتدائی معلومات کے مطابق تحریک انصاف کے ملک بھر میں 23بینک اکاؤنٹس ہیں لیکن اس نے الیکشن کمیشن کے سامنے صرف 8ظاہر کئے ہیں تو اس کمیٹی کی کارروائی کو بھی چیلنج کر دیا گیا۔

تحریک انصاف نے کمیٹی کے خلاف الیکشن کمیشن کو 4درخواستیں دیں تاہم گزشتہ ماہ یکم اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے ان درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے اسکروٹنی کمیٹی کو کام جاری رکھنے اور تحریک انصاف کو کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ دے دیا۔

اسکروٹنی کمیٹی نے 23اکتوبر کو اجلاس منعقد کیا لیکن پی ٹی آئی کے وکلاء نے کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا اور چلتے بنے۔ اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی کو بارہ نومبر کو دوبارہ پیش ہونے کا نوٹس بھیج دیا ہے جبکہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے 10اکتوبر کے فیصلے کیخلاف بھی ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کردی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف گزشتہ پانچ سال سے پارٹی کی فنڈنگ کے کیس پہ الیکشن کمیشن کے ساتھ پنگ پانگ کھیل رہی ہے لیکن اسٹیٹ بینک کی رپورٹ اور اسکروٹنی کمیٹی کی جاری کارروائی سے لگتا ہےکہ اب یہ کھیل جلد ختم ہونے والا ہے۔

اس کیس کا فیصلہ جو بھی ہو لیکن دوسروں کو ذاتی آمدنی کے ذرائع اور منی ٹریل فراہم نہ کرنےکے طعنے دے کر ان پر بدعنوانی کا لیبل لگانے والی تحریک انصاف کی قیادت پانچ سال سے اس کیس سے جس طرح راہ فرار اختیار کر رہی ہے وہ اس کے قول و فعل میں تضاد کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے۔

About The Author