نوے کی دہائی کا اختتام ہوا نئی دہائی نئی صدی نیا پن لے کر آئی کیبل انٹرنیٹ اور موبائیل نے تیسری دنیا کے ممالک تک رسائی حاصل کر لی ۔
ہم گاؤں کے پرائمری سکول سے تحصیل کے ہائی سکول میں آ گئے شہر بھلے چھوٹا تھا لیکن ہم جیسے دیہاتی کی آنکھیں چندھیانے کے لیے اتنی چکا چوند ہی کافی تھی ۔
اجے ،اکشے ،متھن جیسے ایکشن ہیروز کا دور دورہ تھا ہارمونل چینجز ہو رہے تھے ایکشن فلمیں دیکھ کر جسم میں خون کی بجائے پارہ دوڑتا ہوا محسوس ہوتا.
لڑکیوں کو دیکھ کر سنسنی سی محسوس ہوتی..اس سب کے ساتھ ہمیں پہناوے کا کمپلیکس بھی تھا..ہم جیسے دیہاتی کھلے گھیرے والے ایسی شلوار قمیض پہنا کرتے تھے جس کی کفیں اور کندھے چوڑی دار ہوا کرتے تھے.
ہمیں جینز و شرٹ کا شوق تھا لیکن نہ تو گھر والے مہنگی پینٹ شرٹس دلا کر دینے کے قائل تھے نہ ہی گاؤں میں اس طرح کا کوئی رواج تھا۔
شہر میں بھی اکا دکا لڑکے پہن کر جب باہر نکلتے تو لڑکیاں مڑ مڑ کر دیکھتی خرانٹ مرد مونچھوں کو تاؤ دے کر معنی خیز انداز سے مسکراتے اور لڑکے بالے حسرت سے بیلٹ و جینز کو تکا کرتے تھے۔
تب سکول یونیفارم بھی خاکی رنگ کی شلوار قمیض پہ مشتمل ہوتی تھی پھر دو ہزار پانچ کے زلزلے کے بعد سے کوٹ ادو کا ماحول بدلا شہروں سے کمبل رضائیوں کے ساتھ عطیات میں پینٹ شرٹس بھی جمع کی گئیں جو آزاد کشمیر سے ہوتی ہوئی پنجاب کے چھوٹے شہروں کے لنڈا بازاروں تک پہنچ گئیں ۔
اس سے قبل لنڈا بازار میں صرف جرسیاں اور ایکسٹرا لارج قسم کے اوور کوٹ ہی ملا کرتے تھے۔
ہم جیسے گاؤں کے طالب علم ان لنڈا بازاروں پہ ٹوٹ پڑے لنڈا بازاروں سے سائز کی پینٹ شرٹ ڈھونڈ نکالنا ایسے ہی تھا جیسے بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش کرنا.
ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ جینز مردانہ ہے یا زنانہ نیچے سکول شوز ہیں یا نوروزی چپل.. جینز کے اوپر ساڑھے سولہ کالر کی آفس شرٹ ہیں یا ایکسٹرا لارج ٹی شرٹ..ہمیں بس پینٹ شرٹس پہننا ہوتی تھیں۔
پھر دو ہزار دس آیا ساتھ سیلاب لایا.سیلاب نے میری زندگی تبدیل کر کے رکھ دی فرانس جاپان یوکے جرمنی کینیا اور امریکہ سے میڈیکل کی ٹیم یہاں پہنچیں اچھی انگریزی کی وجہ سے مجھے جاب ملی۔
بیس برس کی عمر میں پچاس سے ستر ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملنا شروع ہوئی ملک بھر میں گھومنے فائیو سٹار ہوٹلز میں رہائشیں اتنا ایکسپوژر اور پیسہ ملا کے شخصیت یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی.
جیب میں پیسہ ہو تو کون شوق پورے نہیں کرتا..ہم جب کوٹ ادو کے لنڈا بازار سے گارمنٹس شاپس تک پہنچے تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے.
گارمنٹس شاپ کے مالکان کی عمریں ساٹھ سال سے اوپر شاپس میں برانڈڈ ڈریس ناپید..جو تھے وہ جنریشن گیپ کا منہ بولتا ثبوت..ہم نے پھر آصف درانی وقاص قاضی کے ساتھ ملتان لاہور اور اسلام آباد سے شاپنگ کرنا شروع کر دی۔
اس بیچ کوٹ ادو کے لنڈا بازاروں نے کافی ترقی کر لی تیسرے درجے کے پہناوے سے دوسرے درجے اور پھر اول درجے تک پہنچا..میری شخصیت بھلے تبدیل ہوئی لیکن میرے دوست اور عادات نہیں بدلے.
میں ہر سال لنڈا بازار ضرور جاتا ہوں..امپورٹڈ برانڈڈ چیزیں مل جاتی ہیں..اس سال ہمارے دوست ذوالفقار علی لنڈ نے سردی کے آغاز پہ لنڈا شاپ کا آغاز کیا..زلفی نوجوان ہے نوجوانوں کی پسند سے آگاہ ہے
کمال کا مال لایا ہے.
ایڈیڈاس کا ٹریک سوٹ سات سو روپے میں مل گیا..بلیک جینز اور سلیو لیس اپر جو دو ہزار سے کم نہیں ملتا صرف تین سو میں ملا.
میں کوٹ ادو کے نوجوانوں خصوصاً طلبا کو مشورہ دوں گا کہ سردیوں کی شاپنگ کے لیے ٹی پوائنٹ جی ٹی روڈ پہ زلفی دی ہٹی پہ تشریف لائیں..یقیناً دعائیں دیں گے
رضوان ظفر گورمانی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور