مرد و زن کبھی 2ٹکے کے نہیں ہوتے
تحریر: مظہر ملک
سوشل میڈیا بھی کیا کمال کا سحر رکھتا ہے جو صرف انسانوں کو نہیں ان کے دماغ کو قابو کر لیتا ہے۔ وائرل ہونے والے کلپ کسی ڈرامہ کے ہوں یا پھر کسی ذات کے ہوں پل بھر میں سوشل میڈیا رکھنے والے ہر موبائل کی گیلری ، اکاؤنٹس اور اسٹیسز پہ شیئر ہو جاتے۔ اور پھر یہ نا تھمنے والا سسٹم جاری رہتا ہے۔
کچھ دنوں سے ایک ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو کا ایک 2ٹکے کی عورت والا کلپ وائرل ہوا ہے جو میں نے ہر اسٹیٹس پر دیکھا، جس پر لوگ اپنی قیمتی آرا سے کمنٹس کئے جا رہے ہیں۔ یوٹیوب پر اس ڈرامہ کی ہر قسط کے 7ملین سے زیادہ ویوز ہیں ۔
ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ ڈرامے جو تخیلات پہ بنائے جاتے آخر کیوں لوگ معاشرتی زندگی پہ اثر انداز کیوں ہوتے ہیں۔ خیر میری اس تحریر کا مقصد ڈرامہ کے بارے میں رائے پہ نہیں ہے۔ اللہ نے انسان کو بہت خوبصورت پیدا کیا ہے نا صرف تخلیق کو بہترین کہا بلکہ انسان کو اپنا نائب بنایا۔محاورے کے طور پر 2ٹکے کا بولنا ہمارے معاشرے میں کسی کو کم ظرف سمجھنا کے مترادف ہے۔ جو کہ لفظ انسان کی تزلیل ہے۔
اللہ نے انسان کو دو راستے دیئے اور ان دونوں راستوں کی وضاحت کے بعد ان پر مکمل اختیار دیا کہ وہ اچھے راستے پہ چلے یا برائی کی طرف جائے۔ مگر انسان کے اعمال کو جانچنے جزا سزا دینے کا اختیار اپنے پاس ہی رکھا۔ کسی مرد اور عورت میں معاشرتی برائیاں ہونے پہ معاشرتی طور پر کنارہ کشی اختیار تو کی جا سکتی ہے مگر اس کی ذات کو اس کی کسی ایک برائی کی وجہ سے پورے معاشرے میں مزاق نہیں بنایا جانا چاہئے۔
یہ تحریر اس معاشرے کیلئے ہے جو اس ڈرامے کے ڈائیلاگ کو اپنی زندگی میں ان کیلئے استعمال کر رہے جن سے کوئی دھوکہ کھایا ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی کے بارے میں قائم کی گئی منفی رائے جسے سب کے سامنے ظاہر کر دیا گیا ہووہ کبھی ختم نہیں ہوتی، انسان کے پاس توبہ کا راستہ بھی باقی اور معافی کا بھی۔ نا جانے کب اسے اللہ اپنی رحمت کے زریعے معاف کر دے۔ اس لئے ایسے الفاظ کی نفی کریں۔ اور ٹی وی سیریل ڈراموں کو صرف ڈراموں کی حد تک ہی دیکھیں۔ان کے ڈائیلاگ ان کے اثرات کو ذاتی زندگیوں میں مت آنے دیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ