ثقافت عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ’کسی قوم یا طبقہ کی تہذیب کے ہیں۔ ثقافت سے مراد کسی معاشرے میں موجود وہ رسوم و رواج اور اقدار ہیں، جس پر معاشرے میں بسنے والے ہر مکتبہ فکر کے تمام افراد متفقہ نقطہ نظر رکھتے ہوں اور مشترکہ طور پر عمل کرتے ہوں۔
یہ تمام مشترکہ عادات، ارادی و غیر ارادی طرزِ معاشرت، رسوم و رواج، رہن سہن اور اقدار، سماج میں عزیز و مقدس و مقدم تصور کیے جاتے ہیں۔ ایک صحت مند معاشرے کی اپنی تہذیب اور ثقافت کی ہی وجہ سے اسکے اعلٰی مظاہر و خصوصیات یعنی طرز فکر، نظامِ اخلاق، علم و ادب، نظریہ، زبان، رہن سہن، رسم و رواج ، فن تعمیر اور طرز حیات میں نظر آتے ہیں، یا اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کی طرز معاشرت در اصل علاقائی رسوم و رواج اور ثقافت کا با طن ہوتیں ہیں اور اسی رسم و رواج اور ثقافت کے بطن سے آپس میں پیار، خلوص ، امن، یکجہتی، ایک دوسرے کے احساس، بہتر معاشرتی زندگی کا جنم ہوتا ہے۔
ثقافت اتحاد کی وہ ڈھال ہوتی ہے جو معاشرے کا بھر پور دفاع کرتی ہے اور معاشرے کو مضبوط و مستحکم رکھنے میں مددگار ہوتی ہے۔
پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان بھی اپنی پختہ اور منفرد ثقافت اور رسم و رواج کی وجہ سے اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ لیکن اب معزرت کے ساتھ، دل پہ پتھر رکھ کر “ہے“ کو “تھا“ لکھنا پڑ رہا ہے۔
کیونکہ بچپن میں اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ وہ معاشرہ اور قومیں کمزور و نحیف ہو جاتیں ہیں انکا دم گھٹنے لگتا ہے جو اپنی ثقافت اور رسم و رواج کو چھوڑ کر دوسروں کی ثقافت اور رسوم کو اپنا لیتی ہیں۔
بچپن میں سوچتا تھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ لیکن اب معلوم ہوا کہ وہ بالکل ٹھیک تھے اور جب ان کی باتوں کا موازنہ آج کے دور حاضر سے کرتا ہوں تو وہ تمام باتیں سچ ثابت ہوئیں، آج جو ہمارے ڈیرہ اسماعیل خان کا حال ہے ۔
ویسے تو اس کی وجوہات بہت سی ہیں جن میں سے ایک وجہ ہماری زوال ثقافت ہے جس کی وجہ سے یکجہتی ، بھائی چارہ ، خلوص و محبت ہم میں ناپید ہو چکا ہے، جسکی وجہ سے ہم پریشان حال ہیں۔
ہم ثقافتی اور رسم و رواج میں اپنی مثال آپ تھے۔ چاہے وہ طرزِ تعمیر ہو، رہن سہن ہو، شادی بیاہ کی رسوم ہوں، دھاونڑیوں کا اکٹھ ہو، میلے یا ادبی محفلیں ہوں ، ثوبتوں کی تیاری ، بچوں کی آمین کے پروگرام،ہفتہ ہفتہ شادی کے پروگرام، محلے کے تمام نوجوانوں کا اکٹھے ہو کہ رنگ برنگی جھنڈیاں بنانا, پوری رات محلہ سجانا, گھڑی گھڑولہ، شادمانے، مختلف رنگوں سے سجا لباس دولہے کو پہنا کر گھوڑے پہ بٹھا کر جلوس کی شکل میں سارے بازار گھما کر، چوکوں بازاروں میں ڈحول کی تھاپ پر دریس اور جھمریں،
جمعے کہ جمعے روائیتی آئس کریم، ڈودھی کا حلوہ، لزیز پلاؤ کے شوقینوں کا اکٹھ، عید پہ ایک جیسی کھیڑیاں لینا ایک جیسے کپڑے سلوا کر دس پندرہ دوستوں کا بازاروں میں اکٹھا چلنا، ہر شخص کی خوشی غمی کو اپنا سمجھنا ، کیا یہ سب یکجتی، امن، بھائی چارہ ذات پات، فرقوں سے بالا تراور خلوص پہ مبنی محبتوں کے رسم و رواج کیا ثقافت کا حصہ نہیں تھے ؟
قوموں اور معاشرے کی پہچان ان کی ثقافت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ہماری ثقافت ہے تو ہم ہیں‘ ورنہ ہم کچھ بھی نہیں ۔ ہماری ثقافت زندہ ہے تو ہم زندہ ہیں‘ اگر ا یسا نہیں ہے تو گویا ہم ایک ایسے مرجھائے ہوئے پھول کی مانند ہیں کہ جس کا وجود تو ہے لیکن اسکی پہچان‘ خوشبو اور مہک نہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ قوموں اور معاشروں کا زوال اپنی تہذیب، رسم و رواج اور ثقافت سے دوری پر ہوتا ہے، یہ قوموں کا اثاثہ ہوتیں ہیں، انکی حفاظت اور ترویج ہر شخص کی زمہ داری ہے۔ ہمارے اہل علم، دانشوروں، والدین اور اساتذہ اور بزرگوں کو چاہیے کہ وہ نسل نو کو ان رسوم و رواج اور ثقافت کے بارے بتائیں،
سمجھائیں کہ ہماری ثقافت کی بنیاد یکجہتی پہ ہے، ہمارے رسم و رواج ہر چیز سے بالا تر صرف محبت ، خلوص کی بنیاد پر ہیں۔ ہم سب کو نسل نو تک ان رسم و رواج اور ثقافت کو منتقل کرنا اور بیداری پیدا کرنی ہوگی۔ ہمیں ایک بار پھر ڈیرہ کو پھلاں دا سہرا بنانا ہو گا۔ جس میں ہر رنگ، نسل، مسلک زات پات کا پھول جَڑا ہو ، جنکی شاخیں ایک ہی گلدان میں یکجا ہوں ، ہر پھول کے ساتھ دوسرا پھول منسلک ہو، سب کی ایک جیسی خوشبو ہو۔
جزبات کی گرمی میں گرمیوں کا زیرعنوان بچوں کا ثقافتی اکٹھ کا رواج “ لاڈو لاڈو آئی ہے“ چند لمحوں کے لیئے ٹھنڈا ہو گیا تھا تو اس کو شروع کرتے ہیں۔ بچوں کو بچپن ہی سے اس اکٹھ میں محبت اور یکجہتی اور ایک آواز کا درس ملتا تھا۔ جب ہم بچے تھے اور گرمیاں اپنے پورے عروج پر ہوتیں اور ہر کوئی بارش کی دعا مانگتا اور بارش کی راہ تک رہا ہوتا تو ایسے میں ہر محلے اور گلی کے بچے ہاتھوں میں لاڈو اور ہاتھوں میں پانی کے ڈبے اٹھائے زور زور سے ایک آواز میں کہتے تھے “ لاڈو لاڈو آئی ہے چھکے تے بلائی ہے، چھکا گیا ترٹ ، لاڈو دا جما پتر“
ہم بھی اپنے محلے کے پندرہ بیس بچے اکٹھے ہو جاتے اور مرحوم راجہ چائے والی کی اماں مرحومہ ماسی عاشو کے پاس جاتے وہ ہمیں لکڑی کے سالن والے بڑے چمچے (ڈوئی) کے اوپر سفید کپڑا لپیٹ کے کوئلے سے نقش نین بنا کر ہمیں لاڈو بنا کے دیتی۔ ہم ایک ہاتھ میں بڑا لفافہ اور پانی کا ڈبہ اٹھا کر محلے میں بلند آواز سے لاڈو لاڈو آئی ہے کا گیت گاتے ہوئے ہر گھر میں جاتے، بڑے ہم پہ پانی پھینکتے ہم ان پانی پھینکتے ہر گھر سے یا آٹا ملتا یا پیسے ،
اسی طرح شور مچاتے ، شغل لگاتے ، پانی پھینکتے اور بعض محلے سے گزرنے والے بزرگ اپنا سائیکل روک کر ہمیں خوشی خوشی پیسے دیتے اور کہتے زور زور دی دعا منگو جو بارش آوے۔ آخر پہ سب کمائی پیسے اور آٹا ماسی عاشو کے ہاتھ پہ دیتے اور وہ کہتی چلو اب گھر جاؤ شام کو آنا ۔
جب ہم شام کو بچے اکٹھے ہو کر کر جاتے تو ماسی عاشو جمع شدہ آٹے کی میٹھی پنجیری اور پیسوں کے بدلے سوجی یا ڈودھی والا حلوہ تیار کر کے انتظار میں بیٹھی ہوتی، ڈانٹ کر کہتی شور نہ کرو ، لائن بنڑاو۔ ہم قطار بنا کر ٹھہر جاتے وہ کاغذ پہ ہر بچے کو اچھی خاصی پنجیری اور حلوہ دے کر کہتی جلوس ایلے تاں پندرہ ہاوے ہنڑ تاں پنجاہ بال جمع ہے۔ جس طرح ہم بچے خلوص سے دعا مانگتے ،
ماسی عاشو بغیر کسی لالچ کہ ہماری حوصلہ افزائی کے لیئے اپنائیت سے محنت کر کے نہ صرف پنجیری اور حلوہ تیار کرتی بلکہ اس پہ آنے والا خرچ بھی اپنی طرف سے لگاتی۔ میرے خیال میں بچوں کوابتداء ہی سے، محبت، یکجہتی ، خلوص ، حوصلہ افزائی، اپنائیت اور ہم آواز ہونے کا درس دیتی ہوئی اس سے بڑی کوئی رسم نہیں ہوسکتی اور اسی بنا پر اکثراسی شام یا رات کو بارش بھی ضرور آ جاتی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ