کیا آپ جانتے ہیں این آر اوکیا ہے جو آپ اکثر حکمرانوں کے منہ سے سنتے ہیں ۔نیشنل ری کنسیلی ایشن آرڈیننس( این آر او) کو اردو زبان میں قومی مفاہمتی فرمان کہا جاتا ہے جس کی ابتدا سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف نے 5اکتوبر 2005میں ایک آرڈیننس پہ دستخط کر کے کی۔
اس آرڈیننس کے ذریعے کئی سیاستدانوں اور حکمرانوں پر جنوری 1986سے لیکر 12اکتوبر 1999تک بنائے گئے تمام کیسز کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تقریبا8ہزار افراد جن پر کوئی بھی بدعنوانی اور سنگین نوعیت کے کیسز تھے سب فائلز بند کر دی گئیں۔
اور اسطرح محترمہ بینظیر بھٹو ، شریف خاندان سمیت کئی افراد پاکستانی سیاست میں واپس آئے۔2سال بعد اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے قومی مفاہمتی آرڈیننس کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے کالعدم کردیا۔ جس کی وجہ سے اس این آر او کی حیثیت ختم ہو گئی اور تمام کیسز دوبارہ بحال ہو گئے۔
این آر او کی ضرورت پیش کیوں آتی ہے ؟پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک بات تو طے ہے کہ جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے اپوزیشن کو لگام دینے کیلئے مخلتف طریقے اپنائے جس میں سر فہرست کرپشن کیسز ہیں۔
ویسے تو حکمران جیل کو سیاست کا حصہ اور کامیابی قرار دیتے ہیں مگر یہ صرف عوام کی ہمدردی کیلئے ہوتاہے ۔ حقیقت میں تو سارے جتن مارے جاتےہیں ان کیسز کو ختم کرنے کیلئے ، ایسے موقع پہ حکومت اگر اپوزیشن کو کسی بھی طریقہ سے محفوظ راستہ دے تو اسے مفاہمت کا نام دیا جاتا ہے۔
اس لحاظ سے این آر او ایک سیاسی نعرہ ہی ہوتا جس کا مقصد اپوزیشن کو محفوظ راستہ دینا ہے۔ قانونی سطح پہ اس کا کوئی وجود نہیں مگر ظاہر ہے قانون سازی کرنے والے سب سے طاقتورہوتے ہیں ، اسلئے پاکستان میں لفظ این آر او استعمال کرکے بیک ڈور سے یہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
اس بیک ڈور میں قانونی طور پر بس دو راستے موجود ہیں ایک یہ کہ حکومت تمام کیسز میں یا تو پیروی نہ کرے اور کیس یکطرفہ ہونے کی بنیاد پہ ختم ہو جائے یا پھر کسی کیس میں حکومت کی جانب سے کمزور مؤقف اختیار کیا جائے۔
تعارف:مظہر ملک گزشتہ ایک دہائی سے شعبہ صحافت اور تدریس سے منسلک ہیں۔اپنی صحافی ذمہ داریوں کے تحت سیاست اور معاشرتی مسائل پہ گہری نظر رکھتے ہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ