پیارے بلاول!!
تم نے تاریخ تو پڑھی ہو گی۔
تمہیں بتایا بھی گیا ہو گا۔
کہ
جونا گڑھ کا وزیراعظم تیرے نانا کا والد،
پاکستان کا وزیر اعظم تیری شہید ماں کا باپ،
ایٹمی اور اسلامی جمہوریہ نے دو مرتبہ تیری والدہ کو وزیر اعظم بھی بنایا.
تیرے ابا کو گالیاں دیتے، قید کرتے کرتے صدر بھی بنانا پڑ گیا۔
اور تجھے کیا چاہئیے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ سے بڑے اور ان سے بھی بڑے “زمینی خدا” میرے دیس پر، میرے وسائل پر قبضے کے لئے آپ کو استعمال کرتے ہوں آپ ان کے سہولت کار ان کے آلہ کار ہوں.
معصوم سے بلاول!!
جب تو اپنی اماں، اپنی نانی اپنے ماموں اپنے نانا کے مزار پر جاتا ہو گا تو مزار کی تصاویر گیلری میں سینکڑوں شہداء کے نام نظر آتے ہوں گے اور اب تو اردو بھی پڑھ لیتا ہے یا پوچھ لیتا ہو گا یہ کون ہیں اور اپنے مدفن پر
“میں بھٹو ہوں”
کے کتبے سجائے شہداء کے خاندان کے بارے میں بتایا گیا ہو گا کہ یہ سب تیری خاطر تیری پارٹی خاطر تیرے نانا کو بچاتے تیری ماں کی حفاظت کرتے قربان ہوئے ہیں.
اور تو کیا چاہتا ہے ان سے
بھوکی عوام سے
پیاسے کسان سے
تیرے لئے اور کیا کریں..
بڑے بھٹو نے زنداں پہنچنے کے بعد تسلیم کیا تھا کہ میری سب سے بڑی غلطی مصلحت پسندی تھی میں نے جاگیرداروں اور غریب عوام کے ساتھ مصالحت کی کوشش کی جو کہ غیر فطری ہوتا ہے اور اسی سبب میں آج قید ہوں.
جہاں میرا فخر عوام کو بولنے کا ہنر سکھانا ہے وہیں میرا جرم یہ ہے کہ میں نے آگ و پانی کو ملانے کی کوشش کی. میں نے قاتل و مقتول کے ساتھ چلنے کا جرم کیا.
حالانکہ طبقاتی جنگ میں فتح ایک کی ہوتی ہے دوسرا ہارتا ہے.
یا تو عوام جیتتی ہے یا خواص فتح پاتے ہیں… اور میرا یہی جرم مجھے تختہ دار پر لے آیا.
تیری اماں کو سب کو راضی رکھنے کے بارود نے اڑا ڈالا
اور تیرا ابا بھی تو یہی کہتا ہے آؤ سارے مل کر ملک چلاتے ہیں…
کسے بے وقوف سمجھتے ہو خود کو یا عوام کو…
یاد رکھیں آگ اور پانی کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے. دونوں کے ملن سے ایک کی موت یقینی ہوتی ہے
اب تُو کہتا ہے میں قائد اعظم کا پاکستان بچانے آیا ہوں
میں بھٹو شہید کے دیس کو سنبھالنے آیا ہوں.
میں شہید رانی کے ادھورے کام مکمل کرنے آیا ہوں.
تو نے ہی کہا ہے نا کہ کوئی تو ہو جو عوام کو سُکھ پہنچائے.
کوئی تو ہو جو بھوک سے بلکتے بچوں کو پالے کوئی تو ہو جو گرتے بوڑھوں کو سنبھالے.
آصفہ اور بختاور کے لاڈلے بھیا!!
آپ میمنوں اور منشاؤں کو ساتھ ملا کر مزورد اور کسان سے نوالہ تو چھین سکتے ہیں آسودہ زندگی تو نہیں دے سکتے.
آپ ریاضوں اور مہروں کے ساتھ کابینہ کے اجلاس میں جھوپٹر پٹیوں کے مکینوں کو مکان تو الاٹ نہیں کر سکتے.
آپ ہاریوں کے قاتل آپ مزدوروں کے دشمن کے پہلو میں بیٹھ کر کیا پیغام دے رہے ہیں.
اب آپ بھول جائیں کہ تمہارے لیے کوئی جھرنا نعرہ بھٹو لگاتے دار چومے گا.
اب کوئی تیرے خاندان کے لئے خود سوزیاں کرے گا اب کوئی شاہدہ جبیں اپنے جوان بھائی تیری خاطر قربان نہیں کرے گی.
انہوں نے آپ لوگوں کی خوشنودی کے لئے گھر نہیں چھوڑے تھے جوانیاں نہیں لٹوائی… انہوں نے تو سچ سویرے کے جوانیاں قربان کی تھیں.
اور شہید رانی کے اکلوتے فرزند دلبند.
تو بھی اپنے نانا کی غلطیاں دہرا رہا ہے. تو اپنی شہید ماں جیسی روش اپنا رہا ہے تو اپنے والد کے سب کو راضی رکھنے کے راستے پر گامزن ہے
اور یاد رکھ یہ راستہ گڑھی خدا بخش کی قبروں میں اضافہ تو کر سکتا ہے تڑپتی انسانیت کے آنگن میں پھول نہیں کھلا سکتا.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ