وزیر اعظم عمران خان کا ملک بھر میں لنگر خانے کھولنے کا اعلان ۔۔۔ لنگر خانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ بالادست طبقے کے وسائل کا تحفظ اور طبقاتی تسلط کا تسلسل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر آخر کب تلک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
طبقاتی سماج میں طبقاتی تقسیم کی وجہ سے غذائی قلت ایک بہت بڑا مسئلہ رھی ھے۔ قحط، خشک سالی، جنگ، مہنگائی، بیروزگاری، فسادات، بدانتظامی، ذخیرہ اندوزی، امراء اور دولتمندوں کی لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش کی عدم دستیابی بنیادی مسئلہ ہوتی ھے۔ امراء اور دولتمندوں کو تو سب کچھ پر قدرت حاصل ہوتی ھے کیونکہ یہ مسئلہ پیدا کردہ ھی انہی کا ہوتا ھے جبکہ عوام کی اکثریت خوراک کے حصول سے محروم ہو کر فاقہ کشی پر مجبور ھو جاتی ھے۔۔۔۔
امراء کی حکومتیں اس خوف سے کہ عوام بھوک اور فاقہ کشی کے ہاتھوں مجبور ہو کر بپھر نہ جائیں اور منظم ہو کر سب کچھ لوٹ نہ لیں اور وسائل پر قبضہ نہ کرلیں اس لئے ان کو دو وقت کی روٹی دینے کے احسان کا ناٹک کرتے ھوئے لنگر خانوں کا انتظام و اہتمام کرتے ہیں۔۔۔ مگر دوسری طرف بالا دست طبقے کی حکومتوں کے استحصال کی خباثت جاری رہتی ھے۔۔ اس طور وہ بھوکوں اور فاقہ کشوں کی تعداد میں بھی اضافہ کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
لنگر خانے چلانے کا ایک مقصد یہ بھی ھوتا ھے کہ غریب اور محروم اس تھوڑے سے مل جانے پر شکر گذاری کے احساس تلے دبے رہیں۔ اور یہی کچھ اپنا مقدر جان کر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔۔۔۔ اور اس کیساتھ ساتھ لنگر چلانے والوں کی لوٹ مار پر انگلی اٹھانے کی بجائے ان کی نیکی، سخاوت اور فیاضی کے بھی معترف رہیں۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ھے کہ بالادست حکمران طبقہ لنگر اور خیرات کے اداروں میں حصہ ڈالتے ہوئے خوش اور سرخرو نظر آتا ھے۔۔۔ اسی طرح وہ اپنی طبقاتی جڑت مضبوط کرنے کیلئے اپنے جیسے دوسرے امراء سے چندہ مانگنے میں نہ صرف شرمندہ نہیں ہوتا بلکہ سرگرم بھی نظر آتا ھے۔۔۔۔۔ ( موجودہ وزیراعظم عمران کا تو خیر ہاتھ پھیلانے کا ایک وسیع تجربہ ھے) ۔۔۔۔۔۔
طبقاتی سماج میں مسائل کے حل کی ایسی کوششیں کرنے والے اور لنگر چلانے والوں کی انتظامیہ کے افراد بھی چونکہ ان کے اپنے یا اپنی پسند کے ھوتے ھیں۔ تو وہ چاھے کوئی غریب ھی کیوں نہ ھوں، لوٹ مار کی سرفرازی سے متاثر ھو کر خود لوٹ مار میں لگ جاتے ھیں۔ اس طرح ان کی چوری سے لنگر خانوں کیلئے مقرر کردہ وسائل سکڑنے لگتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے "چور”، کچھ حاصل کر لینے کے بعد معززین کی ایک نئی کھیپ میں شامل ہونا شروع ھو جاتے ہیں۔۔۔
ایسی حالت میں بالا دست حکمران طبقہ اپنی خباثتوں پر پردہ ڈالتے ہوئے انتظامیہ پر مامور لوگوں کی چوری کی آڑ میں پھر غریب طبقے پر لعن طعن شروع کرتے ہوئے لنگر خانے ھی بند دیتے ہیں۔۔۔۔ اس طرح ایک طرف وہ بھوکے ننگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو نظر انداز کردیتے ہیں تو دوسری طرف سارا ملبہ غریبوں اور محروموں پہ ڈال کر اپنی نیک نامی کی ساکھ بھی بچا لیتے ہیں۔۔۔
اپنی ساکھ بچانے اور بنانے کیلئے بالادست حکمران طبقہ میڈیائی بیساکھیوں کا سہارا لیتا ھے۔ غریبوں سے ہاتھ کھینچ کر ان سے بچائے ہوئے وسایل کی ہڈی میڈیا کے منہ میں ڈالی جاتی ھے۔۔۔ میڈیا ان حکمرانوں کی احسان مندی کی جگالی ایسی ہنر مندی سے کرتا ھے کہ غریب اور محروم اپنی غربت اور محرومی کا ذمہ دار خود کو سمجھ کر اپنے آپ کو برا بھلا کہنے اور کوسنے میں لگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
مگر پھر جیسا کہ ابراہام لنکن نے کہا تھا کہ "سب لوگوں کو ہروقت بھی بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا”۔۔۔۔۔۔۔ سو یہ بھوکے ننگے ، اپنی بھوک ننگ میں رہتے ہوئے کچھ اور بھی سوچتے رہتے ہیں۔۔۔۔ انہی کیلئے تو فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ جب کبھی ان کا احساس جاگتا ھے تو وہ اپنے "مالکوں "کی ہڈیاں چبا جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس آج ضرورت نہ صرف محرومی اور ذلت کے احساس جگانے کی ھے بلکہ زندہ احساس کے مالک غریبوں، محروموں، مظلوموں اور محنت کشوں کو بالادست طبقے کی ہر تفریق کو جوتے کی نوک پہ رکھ کے منظم بھی کرنا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر دیکھنا کہ غیر طبقاتی سماج کا سرخ سویرا کس طرح ابھرتا ھے اور کس طرح سب ظالموں کے یہ تاج اور یہ تخت مظلوموں کی ٹھوکروں کا نشانہ بنتے ہیں۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر