سنیچر کی شام مجھے ادب زار کے نوجوان شاعر عزیزم عدنان سمیع کی بارات لانے کے لیے پہاڑپور جانا پڑا۔ پہاڑپور کا ڈیرہ اسماعیل خان سے فاصلہ 30 کلومیٹر ہے ۔ راستے میں کیا دیکھتا ہوں کی ہمارے شھر کے شھزادے گاڑیوں میں جنریٹر اور مچھلی پکڑنے کا جال لے کر دریاے سندھ کی جانب رواں دواں ہیں۔
میں نے دوستوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہفتہ اور اتوار کو چونکہ چھٹی کے دن ہیں اس لیے ہمارے شھزادے تفریح کے لیے دریاے سندھ کے کنارے چشمہ کی جانب جا رہے ہیں ۔کچھ کے پاس شاٹ گن ہیں جو وہ مرغابیوں کو مارنے کے لیے فائر کریں گے۔ ہر سنیچر اتوار کا دن معصوم پرندوں اور مچھلیوں کے لیے موت کا پیغام ہے۔
انسان ظلم کرتے کرتے اب اس سٹیج پر پہنچ چکا ہے کہ اس کی آنکھیں اندھی کان بہرے اور دل مردہ ہو چکے ہیں۔ لوگ اب مچھلیوں کے شکار میں بجلی کا کرنٹ۔زہریلی دوائی اور بم کا استعمال کرتے ہیں تاکہ آبی حیات کا مکمل خاتمہ ہو جائے پھر ہم ڈگڈگی بجا کے فخر کریں کہ دنیا سے آبی حیات کو ختم کرنے والے ہم شیر ہیں۔
دریا میں زہریلی دوائی ڈالنے سے صرف مچھلی نہیں مرتی بلکہ اس کے بچے۔کچھوے۔مینڈک۔، ککوے۔وہ پانی پینے والے مال مویشی اور جانور اور غلطی سے انسان بھی مر جاتے ہیں۔ زہریلی دوا صرف اس ایک جگہ پر اثر نہیں کرتی بلکہ آگے بڑھتی رہتی ہے اور زمین میں جذب ہو کر زیر زمین پانی کو زہریلا بنا دیتی ہے جس کو پھر ہم نے اور ہمارے بچوں نے ہی پینا ہوتا ہے۔
چند لوگوں کی تفریح طبع کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ہم نے محکمہ وائیلڈ لائیف اور فشریز بنایا ہے تاکہ وہ پرندوں۔ مچھلیوں اور جنگلی جانوروں کا تحفظ کرے مگر بدقسمتی سے وہ الٹا رشوت لے کر یا ڈیوٹی میں کوتاہی کر کے قدرتی جانوروں کی ہلاکت کا سبب بن رہےہیں۔ ہمارے پاس سائیبیریا روس سے ھزاروں میل کا سفر طےکر کے خوبصورت پرندے ہر سال اس موسم میں آتے ہیں اور ہمارے مہمان بنتے ہیں۔
یہ پرندے اس لیے آتے ہیں کہ وہ ہماری جھیلوں کو صاف کریں ہمارے ماحول کی خوبصورتی میں اضافہ کریں۔ لیکن ہم ہلاکو خان کی طرح مرغابیوں کا شکار کر کے جس طرح وہ انسانی کھوپڑیوں کے مینار بناتا تھا ہم ان معصوم پرندوں کے مینار کھڑے کر کے اس کے ساتھ فوٹو بنا کر فخر سے فیس بک پر لگا دیتے ہیں کہ قوم ہمارے کارنامے دیکھے۔بجلی کا کرنٹ اور دھماکہ خیز بم کے ذریعے شکار کرنے سے بھی ہم بےتحاشا آبی مخلوق کو قتل کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔کرنٹ سے تو کئی جوان شکار کرتے ہوے خود ہلاک ہو جاتے ہیں اور پھر ان کے ماں باپ کی آہ و زاریاں سنتے ہیں۔
بھائی یہ چرند پرند جانور سب اللہ کی مخلوق ہے اور اللہ انکو اس لیے پیدا نہیں کر رہا کہ ہم مارنا شروع کر دیں۔ ادھر مرغابیوں ۔ فاختاوں یا گیروں کے بچے بھوک اور پیاس میں اپنے ماں باپ کے انتظار میں بلک رہے ہوتے ہیں ادھر یہ مرغابیاں اور گیرے ہماری بندوق کا شکار ہو کے تڑپ رہے ہوتے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا کہ ہمارے اپنے بھی چھوٹے بچے ہماری انتظار میں گھر بیٹھے ہوتے ہیں اور اگر ۔۔۔ اللہ کے بندو یہ پرندے ہمارے دوست ہیں یہ ہماری جھیلوں کو کیڑوں مکوڑوں اور خطرناک جراثیم سے صاف کر تے ہیں۔
کینچوے ہمارے زمینوں میں کھاد بنا رہے ہیں ہم ان کو زندہ کنڈی کی تیز دار نوک پر تڑپتا لٹکا دیتے ہیں کہ مچھلی پکڑ سکیں۔ تلیر ہمارے کھیتوں سے خطرناک کیڑے کھا جاتے ہیں ہم فائیر کر کے ان کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ ظلم کے سارے سین عین ہماری حکومت کے کارندوں کے سامنے فلماے جا رہے ہیں کیونکہ وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ شکاریوں کو دریا پر پکڑنے کے لیے کیا ہمیں امریکی سیٹیلائیٹ کی ضرورت ہے یا کسی راکٹ سائینس کی؟ ہمارے سامنے سڑک پر دندناتے شکاری بمع ساز و سامان پھر رہے ہیں ان کو پکڑو اور کچھ نہیں تو یہ سامان ضبط کر لو۔
مگر 72 سال سے ہمیں نعروں سے بہلایا جا رہا ہے۔ ہر حکومت انصاف اور کرپشن فری معاشرہ قائیم کرنے کا جھنڈا لے کر کھڑی ہوتی ہے آخر میں پتہ چلتا ہے ملک کو کھوکھلا بھی یہی حکومت کرتی جا رہی ہوتی ہے۔ لوگوں کا جمھوریت اور دوسرے خوشنما نعروں سے اعتبار ختم ہو چکا ہے۔ نہ میرٹ۔نہ انصاف نہ تعلیم نہ روزگار ۔بس ایک ٹی وی پر ہر رات محفل سجتی ہے جس میں ہمارے وزیر مشیر سیاستدان ایک دوسرے سے دست و گریبان نظر آتے ہیں۔
ان کو کچھ پتہ نہیں آٹا چینی مہنگی ہو گئی۔ گیس بجلی نہیں آ رہی۔سڑکوں صفائی کا کیا حال ہے؟ بس ایک دوسرے کو زبان کے ذریعے نیچا دکھانا ہے۔ جب مظلوم انسانوں کی کوئی نہیں سنتا پھر ایسے انصاف سے ویران شھر میں پرندوں اور مچھلیوں کی آہ و زاری کس نے سننی ہے ؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ