ٹاہلی یا شیشم کا درخت ہمارے ملک اور خصوصا”ڈیرہ کی تہزیب و ثقافت میں ایک منفرد مقام رکھتا تھا جو اب خال خال نظر آتا ہے۔غالبا” 1992ء کی بات ہے جب ہماری ایک مشھور سنگر مرحومہ نازیہ حسن نے ایک گیت گایا تھا ؎ ٹاہلی دے تھلے بے کے۔۔ او ماہیا۔۔ کریے پیار دیاں گلاں ۔۔ توں میرا درد ونڈاویں میں تیرے درد ونڈاواں۔۔ اس سے پہلے ٹاہلی پر ایک اور گیت بہت چلتا تھا۔۔؎ اچیاں لمیاں ٹاہلیاں وچ گجری دی پینگ وے مایا ۔۔خیر آج جب گلوبل وارمنگ سے دنیا تباہ ہو رہی ہے اور حال ہی میں ختم ہونے والےگرمی کے موسم اور بجلی کی لوڈشیڈنگ نے ہمارے ڈیرہ کا ماحول اور سکون چھین لیا تھا تو مجھے اپنے گاوں کا تیس میٹر اونچا اور گھنا ٹاہلی کا درخت یاد آنے لگا۔ گاوں کی آبادی چند گھروں پر مشتمل تھی جب دوپہر ہوتی تو لوگ کھیتوں سے گھر واپس لوٹتے اپنے بیل اور ڈنگر ڈور درختوں کی جھنگی کے نیچے باندھتے اور ایک چارپائی اور سرھانے سر پر رکھ کر گاوں کی مسجد کے ساتھ بڑی ٹاہلی کے نیچے بچھا کر آرام کرتے۔ گاوں کیا تھا بس ایک کنبہ تھا سب لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اتفاق اتحاد کا زمانہ تھا ٹاہلی کی ٹھنڈی چھاوں کے نیچے بیٹھ کر ڈیڑھ ٹن AC کا مزہ لیتے۔ کرنٹ افیرز پر بات چیت بھی ہوتی اور ڈنگر ڈور کی بیماریوں سے شفا کے نسخے بھی سامنے آتے۔ اسی ٹاہلی پر ہم لڑکے پینگ باندہ کے خوب جھولا جھولتے۔ ہمارے گھروں میں بھی ٹاہلی کے پرانے درخت تھے جن میں خواتین بیٹھ کے آرام کرتیں۔ ہمارے پانی کے نلکے یا ہینڈ پمپ 25 فٹ کی گہرائی پر بور کیے گیے تھے اور پانی منرل واٹر سے بھی بہتر تھا۔ اکثر نلکوں کا پانی بُک بھر کے یا نلکے کے ساتھ منہ لگا کے پیا جاتا۔اب ہمارے گاوں تو چھوڑو پورے شھر کا پانی سات سو فٹ تک زہریلا ہو چکا ہے۔ایسا کیوں ہوا کسی حکومت نے تحقیق کرنے کی کوشش نہیں کی۔پانی کا زیر زمین لیول تیزی سے نیچے جا رہا ہے ہم خواب خرگوش میں خراٹے لے رہے ہیں۔ یہودیوں سے ہم نفرت کرتے ہیں وہ ہماری زیر زمین پانی کو نکال کر پھر بوتلوں میں پیک کر کے ہم کو بیچ رہے ہیں مگر ہم جاگ ہی نہیں رہے ۔ہاں کسی کو گالیاں دینی ہوں کسی کے خلاف فتوے نعرے لگانے ہوں تو ہم خوب جوبن دکھاتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی ادارے ہماری یونیورسٹیاں کوئی تحقیق کوئی ایجاد نہیں کر رہیں بس ایک بے ہنر بے روزگار نسل کو سرٹیفکیٹ دے کر سوسائیٹی میں دھکیل رہی ہے جو معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلیاں لانے کی بجاۓ ہنگامے کرتے اور نشہ آور ادویات کے عادی ہو جاتے ہیں۔جہالت۔غربت۔بےمقصد تعلیم ہمارا طرہ امتیاز بن چکی ہے ہمارے تعلیمی بورڈ سے 1100 سے 1092 نمبر حاصل کرنے والے طلباء میں نہ کوئی آئین سٹائین پیدا ہوتا ہے نہ افلاطون بلکہ بے روزگاروں کی ایک فوج تیار ہو جاتی ہے۔ 72 سال گزرنے کے باوجود ہم ایک بے سمت کشتی کے مسافر ہیں جن کو منزل نہیں مل رہی ہمیں طوفان جدھر چاہتا ہے لیے پھرتا ہے ۔ بات ذرہ دور نکل گئی کہنا یہ تھا کہ بے قابو آبادی اور بڑھتی ہوئی کالونیاں ہمارے درخت کاٹ کے کھا گئیں۔ مقامی درختوں کی اقسام اب کہیں نظر نہیں آ رہیں ۔ہماری ٹاہلی ۔کیکر۔نیم۔سہاجنا۔پیپل۔ بوھڑ۔توت۔پراسوں۔سریح۔لسوڑہ۔نین سکھ۔برگد۔بیر۔گھگل۔کریٹہ۔جنڈی۔کئو یا زیتون۔آم۔اور کئی درختوں کی اقسام ناپید ہو گئیں۔ ہم نے باہر سے درخت جنگلی شہتوت اور کونو وغیرہ لگاے انہوں نے ماحول میں الرجی پیدا کر دی جس سے ہم بیمار پڑنے لگے۔سفیدہ لگانے سے زمین کے نیچے پانی کا لیول گرنے لگا۔اب بھی وقت ہے ہم اپنے مقامی درختوں کو کاشت کریں جو ماحول دوست اور پرندوں کے محبوب تھے۔غیرملکی درختوں پر پرندے بسیرا نہیں کرتے اور ہم سے روٹھ جاتے ہیں۔پرندوں اور شھد کی مکھی کا وجود ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔شھد کی مکھی پھلوں سبزیوں کی پیداوار میں پالینیشن کے ذریعے اضافہ کرتی ہے جبکہ تلیر اور دوسرے پرندے خطرناک کیڑے مکوڑوں کا خاتمہ کر دیتے ہیں ۔ ہم پرندوں کو مار کر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ