ابھی ملک کے ممتاز میگزین ہیرالڈ کے بند ہونے پر ہیرالڈ کے آخری ایڈیٹر بدر عالم کا دیا گیا انٹرویو ہی نا بھلا سکے تھے تو نڈر صحافی رضیہ بھٹی کی نشانی نیوز لائن میگزین کے بند ہونے کی بری خبر آ ٹکرائی ہے۔ ہیرالڈ کے بعد نیوز لائن کے بند ہونے پر فوراً ایک درویش سے منسوب وہ روایت یاد آئی، جس میں درویش کے پیچھے کتے لگے ہیں اور وہ کتوں سے بچنے کے لئے راستے میں پڑے پتھروں کا سہارا لینا چاہتا ہے مگر پتھر مضبوطی سے زمین میں پیوست ہونے کی وجہ سے درویش کے ہاتھ میں نہیں آتے۔ خود کو خالی ہاتھوں اور بی یارو مددگار پا کر درویش کہتا ہے، یارو! کیسا زمانہ آ گیا ہے کہ کتے آزاد کر دیے گئے ہیں اور پتھروں کو باندھ دیا گیا ہے۔ یاراں مگر این شہر شما سنگ ندارد
یہ ریاست اور سماج کا ٹھیک ٹھیک چہرا دکھانے والے صرف دو آئینے ہمارے ہاتھوں سے نہیں چھینے گئے بلکے متبادل تاریخ رقم کرنا، چھاپنا اور پڑھنا بھی ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ ہر حالت اور ہر صورت میں سچ ڈھونڈنے اور سچ لکھنے والوں کی روایت اور باقیات کا ایک اور باب بند کرنے کے لئے جاری آپریشن کا یہ بھی ایک حصہ ہے۔
سنجیدہ اور تحقیقی صحافت کے دو عظیم الشان سرچشمے بند ہونے سے سچ کی شمعیں وطن عزیز میں آج مزید مدہم ہو گئی ہیں۔ ہیرالڈ اور نیوز لائن دو میگزین ہی نہیں بلکہ اس ملک کے اندر صحیح معنوں میں صحافتی تربیت کے دو اسکول تھے، جن سے ہمیں شیری رحمان، زاھد حسین، ادریس بختیار، شاہ زیب جیلانی، نفیسہ شاہ، محمد حنیف، اویس توحید اور حسن مجتبیٰ جیسے صحافی ملے۔ اب وہ اسکول نہیں رہے۔
صحافت کا اس ملک میں اب ایک ہی مقبول اسکول اور ایک ہی مقبول استاد ہے۔ ماڈل اور اداکارہ نیلم منیر اپنے انٹرویوز میں اس اسکول کا نام بھی لیتی ہیں اور استاد کا تعارف بھی کرواتی ہیں۔ افسوس کہ ویب سائٹ “ہم سب ” کا بزدل اور مفلس مدیر اس اسکول اور استاد کا نام شائع کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا، زیرلب فارسی کا ایک مصرع دہراتا ہے، گر ہمیں مکتب است و این ملا۔۔۔ معلوم ہو گیا کہ اب سب گانے، سب فلمیں، سب ڈرامے اسی اسکول سے بننے اور منظور ہونے ہیں۔ متبادل تاریخ کے راستے سکڑنے اور بند ہونے کے بعد اب ملکی متبادل تاریخ کا کام بھی اسی اسکول کے ذمے ہوگا۔ اور مت بھولنا یہی وہ سنہری دور ہوگا جس میں ملک کا صرف مثبت چہرا دکھایا اور بتایا جائے گا۔ آج کی خبر کو ہی کل کی تاریخ بننا ہے۔ خبر مثبت ہوگی تو تاریخ خود بخود مثبت بن جائے گی۔
یہ سرل المیڈا، یہ رضا رومی اور وہ کیا نام تھا اسرائیلی انگور سے بنی شراب کی کہانیاں لکھنے والے اس جیلانی کا ہاں وہی شاہ زیب جیلانی، کیا ایسے لوگوں کی لکھی گئی خبروں اور کہانیوں کے حوالے سے جو تاریخ لکھی جائے گی وہ پڑھائیں گے کیا ہم اپنے بچوں کو؟ اپنے تو کیا، ایسی منفی تاریخ دشمن کے بچوں کو بھی نہیں پڑھانی۔ ویسے بھی فیض آباد دھرنے میں چیک بانٹنے والی قومی رسم کے بعد اب تو دشمن بھی دشمن نہیں رہا۔ یقین نہ آئے تو جسٹس فائز عیسیٰ سے پوچھ لیجئے!
جن رسالوں میں کاروکاری کی کہانیاں چھپتی ہوں اور پھر ان کہانیوں کی مدد سے آکسفورڈ یونیورسٹی جیسے اداروں سے لوگوں کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ملتی ہوں ایسی تاریخ کا کیا کرنا۔ یہ وہی رسالے ہیں جن میں شعیب منصور اور شرمین عبید چنائے کی فلموں اور سلمان رشدی، عائشہ صدیقہ، محمد حنیف اور عائشہ جلال جیسے لکھاریوں کے کتابوں پر تبصرے چھپتے رہے ہیں نا؟ سندھ سے سکھر کے قریب میروں کے شہر خیرپور کے بدنام ڈاکو نذرو ناریجو کی کہانی سے لے کر نبیلہ شاہ کے قتل، الطاف حسین کے کالے چشمے اور انگلیوں مین دمکتی انگوٹھیوں کی کرامات بھی تو انہی رسالوں میں چھپتی تھی۔
کیا ایسی تاریخ کے مستقبل میں نا لکھے جانے کا جشن منایا جائے یا دکھ کیا جائے؟ یہ تو اچھی بات ہے کہ ملک کو بدنام کرنے والے دو ادارے بند ہوئے۔ جن لوگوں کو ملک کی بدنامی کا باعث بننے والے ایسے صحافتی اداروں کے بند ہونے کا دکھ ہے اصل میں یہ وہی لوگ ہیں جو ملک اور ملکی اداروں کو بدنام کرکے آمریکا، برطانیا، جرمنی اور دیگر ممالک کی شہریت حاصل کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ ہیرالڈ اور نیوز لائن بند ہوگئے ورنہ آپ دیکھتے کہ کیسے ان میں سے کوئی میگزیں ضرور اپنے سر ورق پر گلالئی اسماعیل کی تصویر چھاپتا، اس کی جلاوطنی پر ماتم کرتا۔ ایسی متبادل تاریخ کا کیا کرنا۔ جو ملک اور ملکی اداروں کی رسوائی بنے، جو دنیا میں ہمیں بدنام کرے۔ ملکی بدنامی پر ایسے لوگوں کو بڑے بڑے ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے، شکر ہے اب ایسے ایوارڈز کے شور سے بھی بچ جائیں گے۔
ہیرالڈ اور نیوز لائن کے بند ہونے پر قوم کو مبارک ہو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر