بچپن کا زمانہ بڑی نایاب اور انمول شے ہے۔ یہ دور انسان کی وہ قیمتی متاع ہے، جس کے کھوجانے کا غم انسان کو ہمیشہ ستاتا ہے۔ انسان کتنے ہی بلند مقام ومرتبے یا کسی بھی عمر کو پہنچ جائے، لیکن ضرور کبھی کھبار مٹی میں کھیلتے ہوئے ننگ دھڑنگ بچپن کی شرارتوں سے مزین معصوم و سہانی یادیں اس کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہہ پڑتی ہیں اور انسان ایسی وادیوں میں گم ہوجاتا ہے ، جن سے واپس لوٹنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔ بعض دانشوروں نے تو بچپن کو ’’جنّتِ گمشدہ‘‘ یعنی کھوئی ہوئی جنّت کہا ہے۔ بچپن کی حسین یادیں تا عمر انسان کے دل ودماغ کے نہاں خانوں میں جگمگاتی رہتی ہیں۔ ’’بچپن‘‘ کہنے کو تو صرف چار حروف ہیں، لیکن ان حروف میں خدا جانے کیا کچھ چھپا ہے۔ معصومیت، نادانیاں، اٹھکیلیاں، حماقتیں، بے وجہ ضد اور بے شمار دلچسپ، دلکش اور دلربا یادیں۔
میرا بچپن بھی ایسی یادوں سے بھرا پڑا ہے۔ جب کبھی اکثرتنہا سوچ رہا ہوتا ہوں تو مجھے میرا بچپن ، میرا ماضی بے اختیار یاد آنے لگتا ہے۔یقینا آپ سب کا بچپن بھی ایسی کئی حسین یادوں سے بھرا پڑا ہوگا۔ سکول کی رونقیں، گلی محلوں میں پڑوسیوں کے دروازوں پہ زور سے دستک یا گھنٹیاں بجا کر بھاگ جانا، دوستوں کے ساتھ شور و غل کر کے پورا محلہ سر پر اٹھا لینا، پتنگ اڑانا، اور دوسروں کی چھتوں پہ جا کر پتنگ لوٹنا، دوستوں کے ساتھ لڑنا پھر منا لینا، گلی محلوں میں دوستوں کے ساتھ پٹھو گرم، پکڑن پکڑائی، مارکُٹائی، چور سپاہی، اُچی جھکی جھاہ، کوکلے چھپاکے ، چِدے اور گُلی ڈنڈے جسے سرائیکی زبان میں گیٹی ڈناں کہا جاتا ہے جیسے روائیتی کھیل کھیلنا۔ میرے بچپن کی یادوں میں گلی ڈنڈا ہی سب سے زیادہ شیریں یاد ہے، محلے میں موجود لکڑی کے ٹالوں پے دوستوں کے ساتھ اپنی من پسند کی لکڑی ڈھونڈنا، دوستوں کے ساتھ کسی دکان کے پھٹے پہ بیٹھ کر گُلی ڈنڈا بنانا۔ یہ کھیل جد ید کرکٹ کی ایک بنیا دی قسم اور لڑ کوں کا کھیل تھا۔ ماضی میں گلی ڈنڈے کو گلی محلے کی سطح کا مقبول کھیل کہا جائے تو یہ غلط نہ ہو گا ۔
گُلی ڈنڈے کے لیئے تقریبا دو فٹ لمبائی کا لکڑی کا ایک ڈنڈا اور تقریبا چھ انچ گلی کے لیئے لکڑی کا ایک علیحدہ ٹکڑا جس کے دونوں جانب کے سروں کو چھری سے باریک اور نوکدار کیا جاتا تھا جیسے ہم شاپنر کے زریعے پنسل تراشتے ہیں۔ کھیل شروع کرنے سے پہلے زمین پر ایک چھوٹا سا نالی نما گڑھا کھودا جاتا جس کو ہم “پِلی“ کہتے تھے۔ اس پِلی کی چوڑائی تقریبا ڈیڑھ انچ اور لمبائی 3 سے 4 انچ ہوتی، گلی اس پِلی پر رکھ کر ڈنڈے کی مدد سے اُچھالی جاتی تھی۔ اس کھیل کے لیئے دو ٹیمیں تشکیل دی جاتیں، ہر ٹیم میں دو یا اس سے زیادہ کھلاڑی حصہ لے سکتے تھے۔
اس کھیل کی پہلے شرائظ طے کی جاتیں اور بعد میں دونوں ٹیمیں باقاعدہ قرعہ انداز کرتے کہ کونسی ٹیم پہلے کھیلے گی۔ قرعہ جیتنے والی ٹیم جب کھیل شروع کرتی تو اس کا پہلاکھلاڑی گُلّی کو پِلی پر رکھ کر ڈنڈے کی مدد سے زور سے اُچھالتا، اگر سامنے والا مخالف کھلاڑی اسے زمین پر گرنے سے پہلے پکڑ لیتا تو کھیلنے والا باہر ہو جاتا۔ اسی وجہ سے کھلاڑی کی کوشش ہوتی کہ گُلّی اُچھل کر دور جائے تاکہ مخالف کھلاڑی اس کو پکڑ نہ سکے۔ کھلاڑی ڈنڈے سے گُلی پھینکنے کے بعد پِلی پر اپنا ڈنڈا رکھ دیتا، مخالف کھلاڑی گلی سے ڈنڈے کا نشانہ لے کر اس پر گلی مارتا۔ گلی اگر ڈنڈے پر لگ جاتی تو کھلاڑی پھر بھی آؤٹ ہو جاتا اورپھر دوسرے کی باری آتی، لیکن اگر گلی ڈنڈے پر نہ لگتی تو پھر وہی کھلاڑی ڈنڈے سے جہاں گُلی گِری ہوتی وہاں جاکر ڈنڈے سے پوری طاقت سے ہِٹ لگا کر گُلی کو اپنے مقام سے دور پھینکتا، کھلاڑی کے پاس گُلی کو مارنے کے لیئے تین مواقع ہوتے، اگر یہ مواقع ضائع ہوتے تو کھلاڑی آؤٹ ہو جاتا، بعض طاقتور اور تجربہ کار بچے اتنی زور سے ہِٹ لگاتے کہ اس گُلی کو پکڑنے والا اسکے پیچھے بھاگتا اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہتا اور کھلاڑی گُلی کو مار مار کہ اتنی دور لے جاتا کہ کھیل اصل پِلی والے مقام سے بہت دور نکل جاتا۔ اگر کوئی کھلاڑی آوٹ ہو جاتا تو دوسرا کھلاڑی وہی پِلی والے مقام سے دوبارا کھیل شروع کرتا۔ مہینے میں دو تین دفعہ آس پاس کے گلی محلوں کے بچوں کے درمیان قلی ڈنڈے کا “کانواں والا ویڑھا“ موجودہ محلہ فاروقیہ میں ٹورنامنٹ ہوتا اور گلی ڈنڈے کے میچ کے وقت درجنوں بچوں کا غل غپاڑہ، ہنسی ، قہقے اور مختلف آوازیں کسنے کا شور فضا میں بلند ہوتا، جب بچے اپنے شغل میں بے تحاشا شور بلند کرتے تو محلے کے نمبردار داد خدابخش کی گرجدار آواز کے ساتھ بچے خاموش ہو جاتے، جب کہ وہ خود بھی بچوں کے اس کھیل سے محظوظ ہوتے اور جیتنے والی ٹیم کو داد اور حوصلہ افزائی کرتے۔گُلّی ڈنڈا بھاگ دوڑ والا دل چسپ ورزشی کھیل تھا۔ نہ بڑے میدان کی لوازمات، نہ مہنگے سامان کی جھنجٹ، نہ میچ فکسنگ، ماضی میں خصوصا بچوں اور جوانوں میں یہ کھیل دلچسپی کا باعث رہے ہیں۔ روائیتی کھیل جسمانی ورزش اور فکری قوت کو بڑھانے کا موجب تھے۔ کھیل جہاں تفریح اور فارغ اوقات گزارنے کا زریعہ تھے وہاں نظم و ضبط قائم رکھنے اور قوانین پر عمل درآمد کا درس دیتے تھے۔ اس لیئے میں کہہ سکتا ہوں کہ ماضی کے کھیل صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔
اکیسویں صدی اپنے اندر بہت سارا تغیر لے کر آئی۔یہ اسی صدی کا معجزہ ہی تو ہے کہ اس نے پوری دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے ۔آج کا بچہ ہمارے دور سے زیادہ معلومات رکھتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے پاس وقت گزاری کے لۓ بہت کچھ ہے مگر جب ہم اپنے وقت کا موازنہ ان بچوں کے وقت کے ساتھ کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ بہت سی ایسی نعمتوں سے محروم ہیں جن سے ہم فیضیاب ہوتے رہے ہیں ۔ اب نہ بچوں کا بچپنا ہے، نہ ہی مزے مزے کے وہ کھیل، نہ وقت ہے اور نہ ہی دل کا زور۔ لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ کیا ہم نے اپنی ذمہ داری نبھائی؟ ہم نے کیا اپنے بچوں کو بچپن کے کھیل دیئے؟ اپنے یادوں کے بستے سے بچوں کو کیا دیا؟ جب تک ہم انکو آگاہی یا موقع نہیں دیں گے وہ اس چاشنی سے مستفیذ کیسے ہونگے۔ آپ نے اپنے بچوں کے ساتھ کوئی پرانا کھیل کھیلا؟ کبھی کچھ وقت نکال کر گھر کے بچوں کے ساتھ کوکلا چھپاکی، پٹھو گرم، چِدے پتنگ، اُچی جھکی جھاہ، گلی ڈنڈا بغیر کسی قیمت والے کھیل وغیرہ کھیلے؟ نہیں ! تو اب جب بچوں کے سامنے کوئی ذکر کرے گا تو انہیں کیا خبر ہو گی؟ وہ ٹکر ٹکر دیکھتے ہی رہیں گے۔ کیا آپ نے چندلمحے نکال کر اپنے بچپن میں لوٹنے کی کوشش کی؟ سوچیں آخری بار گلی ڈنڈا کب کھیلا؟ ٹھیک ہے آپ بڑے ہوگئے۔ کیا گھر کے آنگن میں میں بچوں کے ساتھ ایسے کھیل کھیل کر آپ کے وقار میں کمی آئے گی؟ درجنوں ایسے کھیل جو آپ نے توکھیلے، لیکن آپ نے اپنے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلے۔ بچوں کو قصے سنانے کے علاوہ ان گھریلو اور گلی محلوں کے کھیلوں کے زریعے بچوں کی زندگیوں میں کوئی رنگ بھرا؟ نہیں تو کیوں؟کیا ہم خود ذمہ دار نہیں ان کھیلوں کو دفن کرنے کے؟ اگر آپ نے یہ سارے روائیتی کھیل کھیلے ہیں تو اپنے بچوں، بھتیجوں ، بھانجوں اور خاندان کے دوسرے بچوں کو ساتھ ملا کر ہر ہفتے ایک آدھ گھنٹے یہ گھریلو روائیتی کھیل کھیلیں جو اب مٹ گئے ہیں۔ تو کیا آپ کھیلیں گے؟؟؟؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر