آج میں آپ کو سرائیکی وسیب ڈیرہ اسماعیل خان کے کچھ ایسے الفاظ سے متعارف کرا رہا ہوں جس کے ارد گرد ہمارے گاوں کی زندگی گھومتی رہی ہے۔ وہ لفظ ہے لو جو لاو کے لہجے میں سرائیکی میں پڑھا جاتا ہے۔
جب میں لاھور تعلیم حاصل کرنے گیا تو وہاں ہوٹلوں پر میڈم نورجہان کا ایک پنجابی گیت سنا ؎ پھِکی پے گئی چن تاریاں دی لو ۔۔تو حالی وی نہ آئیوں سجنا۔۔ تو مجھے پہلی دفعہ پتا چلا کہ پنجابی اور اردو میں تو لو روشنی کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ سرائیکی میں یہ لفظ قطعی مختلف ہے۔
جب داتا دربار گیا تو ایک شخص مراکبے میں بیٹھا تھا میں نے دوست سے پوچھا یہ کیا کر رہا ہے تو اس نے بتایا کہ یہ اللہ سے لو لگا کے بیٹھا ہے تو یہاں معلوم ہوا کہ لو کے معنی شاید کنکٹ ہونے کے ہیں ۔ میری پوسٹنگ ایبٹ آباد میں تھی تو میں ہر کلچرل پروگرام کا حصہ بنتا وہاں جو سب سے پاپولر ہندکو زبان کا لوک گیت تھا اور جس پر لڑکے جھوم جھوم کے ڈانس کرتے وہ اس طرح ہے؎ چٹے چَنے دی چاندنی سرگی دے تارے آ لو چا دے۔۔
میرا چھلا گھمایا ای او چا دے ۔ مطلب یہاں بھی ستارے کی لو سے روشنی کا اثر ملتا ہے۔انہی دنوں انڈیا کی ایک فلم ریلیز ہوئی۔۔ہم آپ کے ہیں کون ۔۔اس فلم میں سلمان خان اور مادھوری کا ایک ڈانس بہت مشھور ہوا ۔۔
پیسے دے دو جوتے لے لو ۔۔۔اب یہاں لو کا لفظ لین دین کے معنوں میں استعمال ہوا۔لیکن سرائیکی زبان کے جس لفظ لو سے میں واقف تھا وہ شاید ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ جب یہاں گندم کی فصل تیار ہوتی ہے اس کو کاٹنے کے عمل کو لو کہتے ہیں اور کاٹنے والے بندے کو لیار کہتے ہیں اور گندم کی کٹائی کا جو معاوضہ ملتا ہے اسے لئی کہتے ہیں یہ راولپنڈی کے نالا لئی سے مختلف چیز ہے۔
چونکہ میں گاوں میں لو کر چکا ہوں اس لیے مجھے اس کا تجربہ ہے کہ ہم فصل کاٹتے وقت کتنے خوش نہال ہوا کرتے تھے حالانکہ یہ ایک مشکل کام تھا۔ گندم کی بالیاں اپریل کی دھوپ میں پک کا سونے کی شکل اختیار کر لیتی ہیں تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہم لو کرنے جاتے تھے۔لو کرنے کے لیے ایک درانتی کی ضرورت ہوتی ہے جو لیار اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
گندم کی فصل کاٹنے کے عمل میں مرد خواتین دونوں شامل ہوتے تھے۔ ہم لڑکوں کی ٹولی ایک طرف سے کٹائی شروع کرتی اور لڑکیاں دوسری طرف سے اور بعض اوقات ڈھول بھی ساتھ ہوتا تھا ورنہ نعرے گانے ٹپے گیت گاتے فصل کاٹتے شغل کے ساتھ آگے بڑھتے۔
شروع میں ہم جلدی جلدی گندم کاٹ کر لائین میں کھلی گڈیوں کی شکل میں رکھتے جاتے اور آخر میں گڈیاں باندھنے کا مرحلہ شروع ہوتا۔گڈیوں کے لیے گندم کے تیلوں کا رسہ بنا لیتے اور اندازے سے برابر وزن کی گڈیاں باندھ لیتے۔ہر دس گڈی پر ایک گڈی ہماری لئی ہوتی یعنی نو گڈیاں مالک زمیندار کی اور ایک گڈی ہمارا معاوضہ۔تو اس طرح اگر پچاس گڈیاں فصل کاٹی تو پانچ گڈیاں ہم اپنی مزدوری گھر لے آتے
ان پانچ گڈیوں سے آٹھ دس سیر سے بھی زیادہ گندم کے دانے نکل آتے تھے۔ ان گڈیوں کو ایک خاص جگہ پر جمع بھی کرتے تھے۔ جب فصل کٹ جاتی سب کچھ سمیٹ لیا جاتا تو ہماری عمر کے لڑکے تازہ کٹی گندم کے کھیت سے وڈھ چنتے۔ وڈھ دراصل گرے پڑے گندم کے خوشے ہوتے۔
اس وڈھ کو ہم اس طرح ہاتھ میں جمع کرتے جیسے مالی گلدستہ بناتے وقت پھول بمع شاخ کا ٹ کر ہاتھ میں پکڑتا ہے۔ یہ وڈھ شام کو کوٹ کاٹ کے ایک آدھ سیر گندم کے دانے نکل آتے جو گاوں کا دکاندار اونے پونے خرید کر ہمیں کوئی بسکٹ ۔گڑدانڑھی ۔مرونڈے دے دیتا۔
اسی طرح اگر سبز گندم کے خوشے ہاتھ لگتے تو آگ جلا کر بھون لیتے جسے ہم تراڑہ بولتے۔یہ نرم گندم کے دانے بھنے ہوۓ بہت لذیذ ہوتے اور ہم مزے لے کر کھاتے۔ جب گندم کی فصل اٹھا لیتے تو گاوں کے ہر گھر پتھر کے دو پاٹ والی چکی تھی۔
عورتیں اس میں آٹا پیستی تھیں۔ہمارے گاوں کی کوئی عورت موٹی نہیں تھی بلکہ چکی پیسنے اور کام کاج کرنے کی وجہ سے ایک دم سلم اور سمارٹ۔آجکل ہم یوگا کرتے ہوے اس چکی چلانے والی ورزش بھی کرتے ہیں تاکہ سمارٹ رہ سکیں۔نئیی گندم کی فصل سے ستو تیار ہوتا جو شکر ڈال کر خوب پیتے تھے۔
گندم کی گنگھڑیاں پکا کر خیرات کی جاتی جو گندم کو ابال کر گڑ ملا کر تیار ہوتی تھیں۔شام کو ہر گھر سے ایک روٹی وظیفہ کا جاتا تھا۔سارا دن مانگنے والے فقیروں کو آٹے کی پرچ خیرات میں دیتے رہتے مگر برکت کی وجہ سے آٹا ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔
گلزاراحمد
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ