این آر او
کب تک ہم اپنے آپ میں ہی مزاحمت کریں گے
اداسی اور ویرانی کا منشور
کبھی بھی انا اور خود پرستی کی مقتدر طاقتیں
ہمیں لاگو نہیں کرنے دیں گی
ہم احتجاج کریں گے
خود پر آنسوؤں سے لاٹھی چارج
حد سے گزرے تو یہ دماغ کی ریاست
ہم پر خون کے چھینٹے بھی پھینک سکتی ہے
جوابا ہم اس کا سارا نظام تباہ کرنے کے سوا
کیا کرسکتے
تھک ہار زندگی سے ایک ذلت بھرا این آر او
کرنا ہی پڑے گا
زندگی ، صحت ، اور انسانی سماج کی روایات
ماننی پڑیں گی
بدلے میں ہمیں اندھیروں کے تہہ خانے میں
اپنا اداسی اور ویرانی کا منشور
ماتمی صداؤں اور ہچکیوں کے نعروں میں
لگانے کی اجازت ہے
زندگی ایک ذلت آمیز این آر او ہے
جہاں دماغ کی اسٹیبلشمنٹ نے
ہمیشہ کیفیات کے معصوم لوگوں کا خون چوسا ہے
آہ ذلت آمیز این آر او
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر